Asrar Akbarabadi

اسرار اکبر آبادی

اسرار اکبر آبادی کی غزل

    دھڑکن میں نہاں عشق کے آزار سے پہلے

    دھڑکن میں نہاں عشق کے آزار سے پہلے اک اور حسیں غم ہے غم یار سے پہلے فطرت کی تمنا کا جو درپن ہیں وہ نغمے گاتی ہیں ہوائیں دل فنکار سے پہلے موسم نے تو بادل کے ابھی باندھے ہیں گھنگھرو دل جھوم اٹھا ہے مرا جھنکار سے پہلے ہم اپنے خیالوں میں تھے کچھ بھی نہیں سمجھے موجوں میں تو ہلچل سی ...

    مزید پڑھیے

    دو جہاں کے حسن کا ارمان آدھا رہ گیا

    دو جہاں کے حسن کا ارمان آدھا رہ گیا اس صدی کے شور میں انسان آدھا رہ گیا ہر عبادت گاہ سے اونچی ہیں مل کی چمنیاں شہر میں ہر شخص کا ایمان آدھا رہ گیا میں تو گھبرایا ہوا تھا یہ بہت اچھا ہوا یاد ان کی آ گئی طوفان آدھا رہ گیا پھول مہکے رنگ چھلکے جھیل پر ہم تم ملے بات ہے یہ خواب کی رومان ...

    مزید پڑھیے

    حسن خوشبو پیام کچھ بھی نہ تھی

    حسن خوشبو پیام کچھ بھی نہ تھی زندگی میرے نام کچھ بھی نہ تھی رنگ بخشے ہیں تیری قربت نے ورنہ شہروں کی شام کچھ بھی نہ تھی ان کی مخصوص اک ادا کے سوا وجہ ترک سلام کچھ بھی نہ تھی ذکر ہی سے ترے اجالا تھا شمع بزم کلام کچھ بھی نہ تھی آدمی کو نشہ تھا روحانی پہلے توقیر جام کچھ بھی نہ ...

    مزید پڑھیے

    موسم نے گلابوں کے انگارے ہی بخشے ہیں

    موسم نے گلابوں کے انگارے ہی بخشے ہیں اٹھتا ہے دھواں دل سے ہم آگ میں جلتے ہیں یوں ان کے دریچے تک جاتی ہے نظر جیسے پانی کے لئے دہقاں آکاش کو تکتے ہیں اس وقت بچھڑتے ہو کیوں راہ وفا میں تم کچھ اور چلو ساتھی آگے کئی رستے ہیں یہ رات ہے ساون کی جنگل میں اکیلا ہوں بجلی بھی چمکتی ہے بادل ...

    مزید پڑھیے

    ماہ و انجم کہکشاں کے آشیانوں سے پرے

    ماہ و انجم کہکشاں کے آشیانوں سے پرے آخری منزل ہے میری آسمانوں سے پرے ایسے عالم میں حقیقت کا ہو کیسے انکشاف وہ ابھی پہنچے نہیں ہیں داستانوں سے پرے ایک طوفاں سے دلوں کی کشتیاں ہیں منتشر ایک طوفاں منتظر ہے بادبانوں سے پرے آپ اپنی عنبریں زلفیں ہوا میں کھول دیں خوشبوئیں تو جا چکی ...

    مزید پڑھیے

    فن اصل میں پنہاں ہے دل زار کے اندر

    فن اصل میں پنہاں ہے دل زار کے اندر فن کار ہے اک اور بھی فن کار کے اندر کانٹوں پہ بچھاتا ہے گلابوں کا بچھونا دو رنگ ہیں اک ساتھ مرے یار کے اندر وہ شور تھا محفل میں کوئی سن نہیں پایا اک چیخ تھی پازیب کی جھنکار کے اندر تم سچ کی زینت تھے مجھے دیکھتے کیسے میں بھی تھا نئی صبح کے اخبار ...

    مزید پڑھیے

    پہچان زندگی کی سمجھ کر میں چپ رہا

    پہچان زندگی کی سمجھ کر میں چپ رہا اپنے ہی پھینکتے رہے پتھر میں چپ رہا لمحے اندھیرے دشت میں پیتے رہے مجھے مجھ میں تھا روشنی کا سمندر میں چپ رہا میرے لہو کے رنگ کا ایسا اثر ہوا منصف سے بولتا رہا خنجر میں چپ رہا بوجھل اداس رات تھی خاموش تھی ہوا پھولوں کی آگ میں جلا بستر میں چپ ...

    مزید پڑھیے

    خواب کیا ہیں شراب کی جھیلیں

    خواب کیا ہیں شراب کی جھیلیں نیند آئے تو ہم ذرا پی لیں ایک سورج ہزارہا کرنیں کھل گئی ہیں حیات کی ریلیں تیز مغرب کی ہو گئی ہے ہوا تھرتھرانے لگی ہیں قندیلیں شہر کی گرد ہی لپٹ جائے کوئی اپنا ملے تو ہم جی لیں فرط غم سے چٹخ گئے الفاظ کیسے نکلیں گی روح سے کیلیں یہ بھی گھر ہو گیا ہے ...

    مزید پڑھیے

    ممکن نہ تھی جو بات وہی بات ہو گئی

    ممکن نہ تھی جو بات وہی بات ہو گئی دریا مجھے ملا تو مری پیاس کھو گئی جب تک تمہارا ذکر رہا جاگتی رہی پھر وہ حسین رات بھی محفل میں سو گئی سایا تمہاری یاد کا اب میرے ساتھ ہے دنیا تو اک ندی تھی سمندر میں کھو گئی تیرا خیال آیا تو محسوس یہ ہوا خوشبو ترے بدن کی مرے ساتھ ہو گئی شاید یہ ...

    مزید پڑھیے

    دشت سے پتھر اٹھا کر شہر میں لائے ہو کیوں

    دشت سے پتھر اٹھا کر شہر میں لائے ہو کیوں یہ لہو مانگیں گے تم سے خود پہ اترائے ہو کیوں خشک ہے دل کا کنول سانسوں میں غم کی آگ ہے جب برسنا ہی نہیں ہے بادلوں چھائے ہو کیوں مے کے ساغر ہیں اگر غم کو مٹانے کا علاج اے نئے موسم کے پھولو پی کے مرجھائے ہو کیوں اب تو خاموشی تمہاری خار سی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2