دھڑکن میں نہاں عشق کے آزار سے پہلے
دھڑکن میں نہاں عشق کے آزار سے پہلے
اک اور حسیں غم ہے غم یار سے پہلے
فطرت کی تمنا کا جو درپن ہیں وہ نغمے
گاتی ہیں ہوائیں دل فنکار سے پہلے
موسم نے تو بادل کے ابھی باندھے ہیں گھنگھرو
دل جھوم اٹھا ہے مرا جھنکار سے پہلے
ہم اپنے خیالوں میں تھے کچھ بھی نہیں سمجھے
موجوں میں تو ہلچل سی تھی منجدھار سے پہلے
سوچا ہی تھا سجدے میں جھکیں خود مری آنکھیں
عرفان خدا ہو گیا دیدار سے پہلے
گر آپ کو تاریخ سمجھنی ہے ہماری
شاخ گل تر دیکھیے تلوار سے پہلے
بادل بھی بنانے کا ہنر سیکھ لو اسرارؔ
صحرا بھی ملے گا رہ دل دار سے پہلے