حسن خوشبو پیام کچھ بھی نہ تھی

حسن خوشبو پیام کچھ بھی نہ تھی
زندگی میرے نام کچھ بھی نہ تھی


رنگ بخشے ہیں تیری قربت نے
ورنہ شہروں کی شام کچھ بھی نہ تھی


ان کی مخصوص اک ادا کے سوا
وجہ ترک سلام کچھ بھی نہ تھی


ذکر ہی سے ترے اجالا تھا
شمع بزم کلام کچھ بھی نہ تھی


آدمی کو نشہ تھا روحانی
پہلے توقیر جام کچھ بھی نہ تھی


جیسے صحرا کی ہو صدا کوئی
قدر عرض عوام کچھ بھی نہ تھی


دل کشا درد کے سوا اسرارؔ
وہ جدائی کی شام کچھ بھی نہ تھی