ماہ و انجم کہکشاں کے آشیانوں سے پرے

ماہ و انجم کہکشاں کے آشیانوں سے پرے
آخری منزل ہے میری آسمانوں سے پرے


ایسے عالم میں حقیقت کا ہو کیسے انکشاف
وہ ابھی پہنچے نہیں ہیں داستانوں سے پرے


ایک طوفاں سے دلوں کی کشتیاں ہیں منتشر
ایک طوفاں منتظر ہے بادبانوں سے پرے


آپ اپنی عنبریں زلفیں ہوا میں کھول دیں
خوشبوئیں تو جا چکی ہیں گلستانوں سے پرے


خستگی سے جن کی قائم ہے محبت شہر میں
کچھ مکاں ایسے بھی ہیں اونچے مکانوں سے پرے


نسل آدم کے سبھی افراد ہیں اس میں شریک
یہ جہاں اک خانداں ہے خاندانوں سے پرے


آؤ ہم اسرارؔ دیکھیں کیا وہاں ہے خاص موڑ
اٹھ رہی ہے گرد سی کچھ کاروانوں سے پرے