بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں
بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں ہم بھی کیا دوانے ہیں آسماں پکڑتے ہیں کوئی دل کو بھیجے ہے روشنی کی تحریریں روزنوں میں کرنوں کی ڈوریاں پکڑتے ہیں ذہن اس کے پیکر میں ڈوب ڈوب جاتا ہے کھیلتے ہوئے بچے جب دھواں پکڑتے ہیں آپ گہرے پانی کا اک بڑا سمندر ہیں ہم تو ایک مانجھی ہیں مچھلیاں ...