Asghar Mehdi Hosh

اصغر مہدی ہوش

نعت، منقبت، سلام ، مرثیے اور قصیدے جیسی اصناف میں شاعری کی

A poet who practised naat, manqabat, salaam, marsiya, and qasida

اصغر مہدی ہوش کی غزل

    بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں

    بے نشان قدموں کی کہکشاں پکڑتے ہیں ہم بھی کیا دوانے ہیں آسماں پکڑتے ہیں کوئی دل کو بھیجے ہے روشنی کی تحریریں روزنوں میں کرنوں کی ڈوریاں پکڑتے ہیں ذہن اس کے پیکر میں ڈوب ڈوب جاتا ہے کھیلتے ہوئے بچے جب دھواں پکڑتے ہیں آپ گہرے پانی کا اک بڑا سمندر ہیں ہم تو ایک مانجھی ہیں مچھلیاں ...

    مزید پڑھیے

    جلا جلا کے دیے پاس پاس رکھتے ہیں

    جلا جلا کے دیے پاس پاس رکھتے ہیں ہم اپنے آپ کو اکثر اداس رکھتے ہیں گلوں کا رنگ پھلوں کی مٹھاس رکھتے ہیں کچھ آدمی بھی شجر کا لباس رکھتے ہیں انہیں بھی خالی گلاسوں کا ٹوٹنا ہے پسند ضرور وہ بھی کوئی زخم یاس رکھتے ہیں جو لوگ نیک تھے شبنم سے ہو گئے سیراب وہ کیا کریں جو سمندر کی پیاس ...

    مزید پڑھیے

    کام کچھ تو لینا تھا اپنے دیدۂ تر سے

    کام کچھ تو لینا تھا اپنے دیدۂ تر سے کاٹ دیں کئی راتیں آنسوؤں کے خنجر سے نیند ہے تھکن سی ہے سلوٹیں ہیں یادیں ہیں کتنے لوگ اٹھیں گے صبح میرے بستر سے جان بوجھ کر ہم نے بادبان کھولے ہیں کس کو اب پلٹنا ہے بے کراں سمندر سے بھیگنا مضر تو تھا پھر بھی کیسی لذت تھی جب گھٹائیں اٹھیں تھیں ...

    مزید پڑھیے

    جو اس ضمیر فروشی کے ماہرین میں ہے

    جو اس ضمیر فروشی کے ماہرین میں ہے وہ آدمی بھی سنا ہے مورخین میں ہے بڑھا رہا ہے مری سمت دوستی کا ہاتھ ضرور بات کوئی اس کی آستین میں ہے زمانہ بیت گیا شہر دشمنی چھوڑے مرا شمار ابھی تک مہاجرین میں ہے وہ مجھ سے کہتا ہے پھولوں سے احتیاط کرو مرا وہ دوست بھی میرے منافقین میں ہے میں ...

    مزید پڑھیے

    اس سے پہلے کہ ہوا مجھ کو اڑا لے جائے

    اس سے پہلے کہ ہوا مجھ کو اڑا لے جائے اپنی زلفوں میں کوئی آ کے سجا لے جائے جس کو اس عہد میں جینے کا ہنر آتا ہو اس سے کہہ دو کہ مری عمر لگا لے جائے چاندنی کھڑکی سے کمرے میں اتر آتی ہے کوئی تصویر نہ البم سے چرا لے جائے حوصلہ دیو سے لڑنے کا کسی میں بھی نہیں چاہتے سب ہیں پری آ کے جگا لے ...

    مزید پڑھیے

    آئے تھے گھر میں آگ لگانے شریر لوگ

    آئے تھے گھر میں آگ لگانے شریر لوگ اور ہنس رہے تھے دور کھڑے بے ضمیر لوگ ہمت کہاں ہے مجھ میں کہ سچ بول کر دکھاؤں بیٹھے ہوئے ہیں جوڑے کمانوں میں تیر لوگ ہر آدمی کے لب پہ ہے اک دل شکن سوال آخر کہاں چلے گئے وہ دل پذیر لوگ اک روز کہہ دیا تھا حقیر انکسار میں یہ بات سچ سمجھ گئے سارے حقیر ...

    مزید پڑھیے

    پھول پتھر کی چٹانوں پہ کھلائیں ہم بھی

    پھول پتھر کی چٹانوں پہ کھلائیں ہم بھی آپ کہیے تو کوئی شعر سنائیں ہم بھی ریت پر کھیلتے بچوں کی نظر سے بچ کر آؤ اک خواب کی تصویر بنائیں ہم بھی اب کے موسم کی ہواؤں میں بڑی وحشت ہے زرد پتوں کی طرح ٹوٹ نہ جائیں ہم بھی قافلے اور بھی اس دشت سے گزرے ہوں گے لے کے آئے ہیں فقیروں سے دعائیں ...

    مزید پڑھیے

    بچپن تمام بوڑھے سوالوں میں کٹ گیا

    بچپن تمام بوڑھے سوالوں میں کٹ گیا اسکول کی کتابوں سے اب جی اچٹ گیا لکھے ہوئے تھے سارے فرشتوں کے جس پہ نام شاید وہی ورق کسی بچے سے پھٹ گیا تازہ ہوا کی آس میں پردے اٹھا دیے بس یہ ہوا کہ گرد میں سامان اٹ گیا کل کارنس پہ دیکھ کے چڑیوں کا کھیلنا بے وجہ ذہن اس کے خیالوں میں بٹ گیا اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2