جو اس ضمیر فروشی کے ماہرین میں ہے

جو اس ضمیر فروشی کے ماہرین میں ہے
وہ آدمی بھی سنا ہے مورخین میں ہے


بڑھا رہا ہے مری سمت دوستی کا ہاتھ
ضرور بات کوئی اس کی آستین میں ہے


زمانہ بیت گیا شہر دشمنی چھوڑے
مرا شمار ابھی تک مہاجرین میں ہے


وہ مجھ سے کہتا ہے پھولوں سے احتیاط کرو
مرا وہ دوست بھی میرے منافقین میں ہے


میں آسمان کی باتوں سے خوش نہیں ہوتا
مرے خمیر کی مٹی اسی زمین میں ہے


ہرن سا وحشی محبت کا درس دیتا ہے
یہ واقعہ ہے کتاب سبکتگین میں ہے


غزل میں عہد نگاری کا حسن بھی ہے کمال
مرا خیال یقیناً کسی حسین میں ہے