آئے تھے گھر میں آگ لگانے شریر لوگ
آئے تھے گھر میں آگ لگانے شریر لوگ
اور ہنس رہے تھے دور کھڑے بے ضمیر لوگ
ہمت کہاں ہے مجھ میں کہ سچ بول کر دکھاؤں
بیٹھے ہوئے ہیں جوڑے کمانوں میں تیر لوگ
ہر آدمی کے لب پہ ہے اک دل شکن سوال
آخر کہاں چلے گئے وہ دل پذیر لوگ
اک روز کہہ دیا تھا حقیر انکسار میں
یہ بات سچ سمجھ گئے سارے حقیر لوگ
دست طلب دراز کریں بھی تو کیا کریں
دیکھے گئے ہیں دست نگر دست گیر لوگ
جو پوچھنا ہے پوچھ لے اور چھوڑ راستہ
ٹکتے نہیں کسی بھی جگہ ہم فقیر لوگ
برپا کیا گیا تھا غریبی مٹاؤ جشن
شامل تھے اس میں شہر کے سارے امیر لوگ