پھول پتھر کی چٹانوں پہ کھلائیں ہم بھی
پھول پتھر کی چٹانوں پہ کھلائیں ہم بھی
آپ کہیے تو کوئی شعر سنائیں ہم بھی
ریت پر کھیلتے بچوں کی نظر سے بچ کر
آؤ اک خواب کی تصویر بنائیں ہم بھی
اب کے موسم کی ہواؤں میں بڑی وحشت ہے
زرد پتوں کی طرح ٹوٹ نہ جائیں ہم بھی
قافلے اور بھی اس دشت سے گزرے ہوں گے
لے کے آئے ہیں فقیروں سے دعائیں ہم بھی
لوگ جلتے ہوئے گھر دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
اپنا گھر ہو تو کبھی آگ لگائیں ہم بھی
منتظر ہے کوئی وادی کوئی بستی کوئی دشت
اب پہاڑوں سے پگھل کر اتر آئیں ہم بھی
ہم سے کیا کہتے ہو فیاضیٔ دست خیرات
اسی کوچے میں لگاتے ہیں صدائیں ہم بھی