Asghar Mehdi Hosh

اصغر مہدی ہوش

نعت، منقبت، سلام ، مرثیے اور قصیدے جیسی اصناف میں شاعری کی

A poet who practised naat, manqabat, salaam, marsiya, and qasida

اصغر مہدی ہوش کی غزل

    چہروں کو بے نقاب سمجھنے لگا تھا میں

    چہروں کو بے نقاب سمجھنے لگا تھا میں سب کو کھلی کتاب سمجھنے لگا تھا میں جلنا ہی چاہئے تھا مجھے اور جل گیا انگاروں کو گلاب سمجھنے لگا تھا میں یہ کیا ہوا کہ نیند ہی آنکھوں سے اڑ گئی کچھ کچھ زبان خواب سمجھنے لگا تھا میں اپنی ہی روشنی سے نظر کھا گئی فریب ذروں کو آفتاب سمجھنے لگا تھا ...

    مزید پڑھیے

    بستی ملی مکان ملے بام و در ملے

    بستی ملی مکان ملے بام و در ملے میں ڈھونڈھتا رہا کہ کہیں کوئی گھر ملے بے سمت کائنات میں کیا سمت کی تلاش بس چل پڑے ہیں راہ جہاں اور جدھر ملے آوارگی میں تم بھی کہاں تک چلو گے ساتھ پہلے بھی راستے میں کئی ہم سفر ملے لگتا ہے اب کے جان ہی لے لے گی فصل گل اشکوں میں آج بھی کئی لخت جگر ...

    مزید پڑھیے

    پیاسا رہا میں بالا قدی کے فریب میں

    پیاسا رہا میں بالا قدی کے فریب میں دریا بہت قریب تھا مجھ سے نشیب میں موقعہ ملا تھا پھر بھی نہ میں آزما سکا اس کی پسند کے کئی سکے تھے جیب میں پردیس جانے والا پلٹ بھی تو سکتا ہے اتنا کہاں شکیب تھا اس نا شکیب میں سنتا تو ہے بدن کی عبادت پہ آیتیں آتا نہیں ہے پھر بھی کسی کے فریب ...

    مزید پڑھیے

    اتنا احساس تو دے پالنے والے مجھ کو

    اتنا احساس تو دے پالنے والے مجھ کو میں سنبھل جاؤں اگر کوئی سنبھالے مجھ کو بے سہارا ہوں کسی وقت بھی گر جاؤں گا اپنی دیوار میں جو چاہے ملا لے مجھ کو ڈوبنے سے جو بچائے گا وہ کیا پائے گا میں ابھی لاش نہیں کون نکالے مجھ کو میں پیمبر تو نہیں تھا کہ اماں پا جاتا کیا چھپاتے بھی کہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو سزا چاہو محبت سے دو یارو مجھ کو

    جو سزا چاہو محبت سے دو یارو مجھ کو لیکن اخلاق کے پتھر سے نہ مارو مجھ کو آبشاروں کی طرح میں نہیں گرنے والا دھوپ کی طرح پہاڑوں سے اتارو مجھ کو میں تو ہر حال میں ڈوبوں گا مگر اخلاقاً یہ ضروری ہے کہ ساحل سے پکارو مجھ کو عظمت تشنہ لبی بھول نہ جاؤ لوگو پھر کسی دشت سے اک بار گزارو مجھ ...

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ تنگ رہا مجھ پہ زندگی کا لباس

    ہمیشہ تنگ رہا مجھ پہ زندگی کا لباس کبھی کھلا نہ مرے جسم پر خوشی کا لباس حسین پھولوں کی صحبت میں اور کیا ہوتا الجھ کے رہ گیا کانٹوں میں زندگی کا لباس جو جل گیا ہے وہی جانتا ہے اپنی جلن کسی کے جسم پہ اٹتا نہیں کسی کا لباس یہ کیا ستم کیا تم نے تو چاک کر ڈالا ذرا ذرا سا مسکنا تھا ...

    مزید پڑھیے

    یہ تو سچ ہے کہ ٹوٹے پھوٹے ہیں

    یہ تو سچ ہے کہ ٹوٹے پھوٹے ہیں میرے بچپن کے یہ کھلونے ہیں تپتے صحرا میں تیز بارش کے میں نے کتنے ہی خواب دیکھے ہیں کون کس کی برہنگی پہ ہنسے سب ہی زیر لباس ننگے ہیں وہ کبوتر تھے کتنے گرم و گداز اب بھی ہاتھوں میں لمس چپکے ہیں ان کے پانی سے کیا بجھے گی پیاس یہ گھڑے تو بہت ہی کچے ...

    مزید پڑھیے

    میرا بچپن ہی مجھے یاد دلانے آئے

    میرا بچپن ہی مجھے یاد دلانے آئے پھر ہتھیلی پہ کوئی نام لکھانے آئے آ کے چپکے سے کوئی چیخ پڑے کانوں میں گدگدانے نہ سہی آئے ڈرانے آئے لوٹ لے آ کے مری صبح کی میٹھی نیندیں میں کہاں کہتا ہوں وہ مجھ کو جگانے آئے میرے آنگن میں نہ جگنو ہیں نہ تتلی نہ گلاب کوئی آئے بھی تو اب کس کے بہانے ...

    مزید پڑھیے

    باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے

    باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے شام سے اک دن گھر میں رہ کر دیکھیں کیسا لگتا ہے کس کی یادیں کس کے چہرے اگتے ہیں تنہائی میں آنگن کی دیواروں پر کچھ سایہ سایہ لگتا ہے جسموں کے اس جنگل میں بس ایک ہی رام کہانی ہے غور سے دیکھو تو ہر چہرہ اپنا چہرا لگتا ہے موسم کی عیاش ہوا نے ...

    مزید پڑھیے

    محبت کر کے شرمندہ نہیں ہوں

    محبت کر کے شرمندہ نہیں ہوں میں اس دنیا کا باشندہ نہیں ہوں حساب دلبراں مجھ سے نہ مانگو میں اک شاعر ہوں کارندہ نہیں ہوں میں اک آزاد و خود روشن ستارہ کسی سورج سے تابندہ نہیں ہوں طلسم غم سے پتھر ہو گیا ہوں میں زندہ ہوں مگر زندہ نہیں ہوں یہ میرا عہد مجھ میں جی رہا ہے میں بس اپنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2