جو سزا چاہو محبت سے دو یارو مجھ کو

جو سزا چاہو محبت سے دو یارو مجھ کو
لیکن اخلاق کے پتھر سے نہ مارو مجھ کو


آبشاروں کی طرح میں نہیں گرنے والا
دھوپ کی طرح پہاڑوں سے اتارو مجھ کو


میں تو ہر حال میں ڈوبوں گا مگر اخلاقاً
یہ ضروری ہے کہ ساحل سے پکارو مجھ کو


عظمت تشنہ لبی بھول نہ جاؤ لوگو
پھر کسی دشت سے اک بار گزارو مجھ کو


تم تو ڈوبے ہوئے خورشید کے پروردہ ہو
تم نہیں جانتے اے چاند ستارو مجھ کو