یہ تو سچ ہے کہ ٹوٹے پھوٹے ہیں
یہ تو سچ ہے کہ ٹوٹے پھوٹے ہیں
میرے بچپن کے یہ کھلونے ہیں
تپتے صحرا میں تیز بارش کے
میں نے کتنے ہی خواب دیکھے ہیں
کون کس کی برہنگی پہ ہنسے
سب ہی زیر لباس ننگے ہیں
وہ کبوتر تھے کتنے گرم و گداز
اب بھی ہاتھوں میں لمس چپکے ہیں
ان کے پانی سے کیا بجھے گی پیاس
یہ گھڑے تو بہت ہی کچے ہیں
ذہن کا اک ورق بھی سادہ نہیں
جانے کیا کیا سوال لکھے ہیں
پڑ رہے ہیں فرات پر پہرے
میرے ہاتھوں میں خالی کوزے ہیں