پیاسا رہا میں بالا قدی کے فریب میں

پیاسا رہا میں بالا قدی کے فریب میں
دریا بہت قریب تھا مجھ سے نشیب میں


موقعہ ملا تھا پھر بھی نہ میں آزما سکا
اس کی پسند کے کئی سکے تھے جیب میں


پردیس جانے والا پلٹ بھی تو سکتا ہے
اتنا کہاں شکیب تھا اس نا شکیب میں


سنتا تو ہے بدن کی عبادت پہ آیتیں
آتا نہیں ہے پھر بھی کسی کے فریب میں


کھلتا ہے اس کے جسم پہ قاتل کا بھی لباس
کیا عیب ڈھونڈھتا کوئی اس جامہ زیب میں


بھوکا پرندہ شاخ پہ بیٹھا اور اڑ گیا
شاید کوئی مٹھاس نہ تھی کچے سیب میں