Asad Raza Sahar

اسد رضا سحر

اسد رضا سحر کی غزل

    ہیں کچی بستی کے لوگ سادہ مگر وہاں کے مکین توبہ

    ہیں کچی بستی کے لوگ سادہ مگر وہاں کے مکین توبہ عدم توجہ کی بھینٹ چڑھ کے گھروں میں بیٹھے حسین توبہ وہ جس کی خاطر تمام بھائی نشان عبرت بنے ہوئے ہیں پڑی ہے ویسے کی ویسے دیکھو وہاں پہ ساری زمین توبہ گرا کے کعبہ دین کربل کے دشت میں بے حیا کہیں کے وہ دیکھو روٹھے کھڑے ہیں انعام کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    جیسے اجڑا ہوا میں ویسے ہے اجڑا ہوا تو

    جیسے اجڑا ہوا میں ویسے ہے اجڑا ہوا تو کس لیے آتا ہے پھر خواب میں روتا ہوا تو یہ مری آخری خواہش ہے سو مانی جائے مسکراتا ہی رہے سامنے بیٹھا ہوا تو میری سانسوں سے ملاتا تھا تو اپنی سانسیں اب تو مدت سے مرے یار ہے بچھڑا ہوا تو تو جو لڑتا ہے تو ہے فائدہ میرا اس میں کس قدر دوست حسیں ...

    مزید پڑھیے

    اذیت ناک ہوتا ہے کسی کے ہجر میں رہنا (ردیف .. ن)

    اذیت ناک ہوتا ہے کسی کے ہجر میں رہنا خوشی جتنی بھی مل جائے میں غم محسوس کرتا ہوں کسی کے ہجر میں آنکھوں کو روئے عمر گزری ہے مگر اس آنکھ کو اب تک میں نم محسوس کرتا ہوں مری ہر اک خوشی تم سے مری رگ رگ میں بہتے ہو فقط تیرا ہی میں ہمدم الم محسوس کرتا ہوں عقیدت اور الفت سے میں جب مسجد ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کے زاویے بھی وہیں پر جڑے رہے

    آنکھوں کے زاویے بھی وہیں پر جڑے رہے کچھ دل فریب لوگ جہاں پر کھڑے رہے آیا نہیں خیال کسی راہگیر کو کنوئیں میں سات سال تو ہم بھی پڑے رہے وہ کر رہے تھے باتیں سراسر خلاف جب جرگے میں کچھ بھی کہنے سے ہم کیوں ڈرے رہے ہم جانتے ہیں جھیلیں ہیں تم نے اذیتیں کچھ امتحان ہم پہ بھی اکثر کڑے ...

    مزید پڑھیے

    تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر

    تھوڑا سا اور مجھ کو تو اپنے قریب کر نیکی اسی کا نام ہے میرے حبیب کر کیا کیا نہیں سنا ترے بارے میں آج کل اٹھ کر دکھا دھمال یا کچھ تو عجیب کر پہلے بھی مفلسی کی ہوں سدرہ پہ یار میں دامن چھڑا کے اور نہ مجھ کو غریب کر مانوس ہو چکا ہوں میں اس عارضے سے اب اپنا تجھے جو کام ہے جا کے طبیب ...

    مزید پڑھیے

    آج مقتل کو سجایا جا رہا ہے

    آج مقتل کو سجایا جا رہا ہے خون ناحق بھی بہایا جا رہا ہے رقص کرنے کے لیے کچھ لڑکیوں کو باری باری ہی بلایا جا رہا ہے جس نے کلمہ پڑھ لیا تھا آخری دم اس کا لاشہ کیوں جلایا جا رہا ہے اس کے لہجے میں رعونت تو نہیں ہے اس کو نظروں سے گرایا جا رہا ہے گھر تو خالی ہے گزشتہ ایک ماہ سے میرے ...

    مزید پڑھیے

    جن کے تری نظر میں پرستار لوگ ہیں

    جن کے تری نظر میں پرستار لوگ ہیں میرے لیے وہ شہر کے بے کار لوگ ہیں آنکھوں کا سرخ رنگ نشانی ہے میرے دوست دیکھو قریب آ کے وفادار لوگ ہیں الزام دے رہے ہو بے سبب میاں حالانکہ وہ تو صاحب کردار لوگ ہیں اب نہ خدارا سونپنا ہم کو محبتیں ہم اپنے ہی وجود سے بیزار لوگ ہیں انور کبیر صفدر و ...

    مزید پڑھیے

    اب زندگی سے جان چھڑانے لگا ہوں میں

    اب زندگی سے جان چھڑانے لگا ہوں میں دشت اجل سے آنکھ ملانے لگانے ہوں میں جبر و جفا کچھ اس طرح سونپے گئے مجھے دیکھو یہ شہر چھوڑ کے جانے لگا ہوں میں میں چاہتا ہوں آتی رہیں تتلیاں یہاں کاغذ پہ تیرے ہونٹ بنانے لگا ہوں میں جو چاہتے ہیں جانا بصد شوق جائیں وہ سارے یہ اب چراغ بجھانے لگا ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو کربل کو ہی بس دار بقا کہتے ہیں

    ہم تو کربل کو ہی بس دار بقا کہتے ہیں اس کی مٹی کو سنو خاک شفا کہتے ہیں یہ تو بس مجھ سے ہی ہو جاتی ہے غفلت اکثر جو بھی کہتے ہیں بڑے میرے بجا کہتے ہیں پھینکی لکڑی تو کبھی رستہ کبھی سانپ بنا اس کو لکڑی نہیں موسیٰ کا عصا کہتے ہیں میں سزا لفظ کی تعریف بتاتا ہوں سنو منتظر ہونے کو بھی ...

    مزید پڑھیے

    سنیے حضور مجھ کو نہیں سادگی پسند

    سنیے حضور مجھ کو نہیں سادگی پسند کچھ کچھ فسوں کے ساتھ ہے کچھ خامشی پسند رہتے ہیں سانپ بن کے مری آستیں میں جو ان دوستوں کی مجھ کو نہیں دوستی پسند ورثے میں یہ ملی تھی مجھے مہرباں مرے اس واسطے مجھے ہے بہت تیرگی پسند مجھ سے ملا تھا خواب کے عالم میں اور کہا میں بے سکوں تھا اس لیے کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2