آنکھوں کے زاویے بھی وہیں پر جڑے رہے

آنکھوں کے زاویے بھی وہیں پر جڑے رہے
کچھ دل فریب لوگ جہاں پر کھڑے رہے


آیا نہیں خیال کسی راہگیر کو
کنوئیں میں سات سال تو ہم بھی پڑے رہے


وہ کر رہے تھے باتیں سراسر خلاف جب
جرگے میں کچھ بھی کہنے سے ہم کیوں ڈرے رہے


ہم جانتے ہیں جھیلیں ہیں تم نے اذیتیں
کچھ امتحان ہم پہ بھی اکثر کڑے رہے


حالانکہ دھمکیاں بھی سحرؔ بارہا ملیں
سچے تھے سو زبان پہ اپنی اڑے رہے