Arshad Abdul Hamid

ارشد عبد الحمید

معروف شاعر اور ناقد

Well-knwn poet and critic

ارشد عبد الحمید کی غزل

    جان کا آزار ہے بیماریٔ دنیا نہیں

    جان کا آزار ہے بیماریٔ دنیا نہیں ذات تک محدود ہو جائیں تو کچھ خطرا نہیں اب حفاظت جتنی ہے محبوس ہو جانے میں ہے خود کے باہر گھومنے پھرنے کا اب موقع نہیں اس سے ملنا آبشاروں سے گزرنا تھا مگر خوف کا وہ کون سا طوفاں تھا جو آیا نہیں اب کے بچھڑے کب ملیں گے اب کی بار اک یہ سوال ہم نے بھی ...

    مزید پڑھیے

    غزل میں جان پڑی گفتگو میں پھول کھلے

    غزل میں جان پڑی گفتگو میں پھول کھلے مری نوا سے دیار نمو میں پھول کھلے مرے ہی شعر اچھالے مرے حریفوں نے مرے طفیل زبان عدو میں پھول کھلے انہیں یہ زعم کہ بے سود ہے صدائے سخن ہمیں یہ ضد کہ اسی ہاؤ ہو میں پھول کھلے یہ کس کو یاد کیا روح کی ضرورت نے یہ کس کے نام سے میرے لہو میں پھول ...

    مزید پڑھیے

    اشعار میں جو میرے کرن جستجو کی ہے

    اشعار میں جو میرے کرن جستجو کی ہے میراث یہ بھی تیرے ہی مہر نمو کی ہے نظروں میں اب بھی ہیں ترے لہجے کے ماہ و نجم اب بھی سماعتوں میں چمک گفتگو کی ہے تیری پکار ہے کہ یہ بوندیں ہیں اوس کی آواز نغمہ ہے کہ صدا آب جو کی ہے دیوار ضبط ٹوٹ بھی سکتی ہے کچھ کروں فوارہ چھوٹ جائے وہ حالت لہو کی ...

    مزید پڑھیے

    نظر میں صلح بھی سر پر لہو بھی دیکھتا ہے

    نظر میں صلح بھی سر پر لہو بھی دیکھتا ہے مجھے تو رشک سے میرا عدو بھی دیکھتا ہے میں شورشوں میں بھی دل کو قریب رکھتا ہوں یہی تو ہے جو پس ہاو ہو بھی دیکھتا ہے چراغ انہیں کی وساطت سے جل رہا ہے مگر کبھی ہواؤں کو یہ تند خو بھی دیکھتا ہے مجھے یہ موتی سمندر یوں ہی نہیں دیتا وہ میرے حوصلے ...

    مزید پڑھیے

    فصیل صبر میں روزن بنانا چاہتی ہے

    فصیل صبر میں روزن بنانا چاہتی ہے سپاہ طیش مرے دل کو ڈھانا چاہتی ہے لپٹ لپٹ کے شجر کو لبھانا چاہتی ہے ہر ایک بیل محبت جتانا چاہتی ہے ریال خواب لٹاتی ہے دونوں ہاتھوں سے امیر شوق مجھے آزمانا چاہتی ہے مرا ہی سینہ کشادہ ہے چاہتوں کے تئیں تفنگ درد مرا ہی نشانا چاہتی ہے میں اپنے آپ ...

    مزید پڑھیے

    حواس و حافظے کا مان رہ گیا ہے بس

    حواس و حافظے کا مان رہ گیا ہے بس کہاں کی یاد ترا دھیان رہ گیا ہے بس تمام لشکر عقل و نگاہ کھیت رہا بساط عشق پہ سلطان رہ گیا ہے بس وہ اور ہیں کہ جو غم کو غلط بھی کرتے ہیں یہ دل تو ہجر سے حیران رہ گیا ہے بس خدنگ خواب تجھے دل میں لے کے بیٹھ رہوں مرے لئے یہی آسان رہ گیا ہے بس وراثتوں کے ...

    مزید پڑھیے

    خموش جادۂ انکار بھی ہے صحرا بھی

    خموش جادۂ انکار بھی ہے صحرا بھی عزا میں پائے جنوں بار بھی ہے صحرا بھی کہیں بھی جائیں لہو کو تو صرف ہونا ہے کہ تشنہ کوچۂ دل دار بھی ہے صحرا بھی متاع زیست خریدیں کہ تیری سمت بڑھیں ہمارے سامنے بازار بھی ہے صحرا بھی مجھے تو ساری حدوں سے گریز کرنا ہے مرا حریف تو گھر بار بھی ہے صحرا ...

    مزید پڑھیے

    مہر و مہتاب کو میرے ہی نشاں جانتی ہے

    مہر و مہتاب کو میرے ہی نشاں جانتی ہے میں کہاں ہوں وہ مری سرو رواں جانتی ہے تم سے ہو کر ہی تو آئی ہے لہو تک میرے تم کو یہ سرخیٔ جاں شعلہ رخاں جانتی ہے کون اپنا ہے سمجھتی ہے خموشی شب کی اجنبی کون ہے آواز سگاں جانتی ہے دل کو معلوم ہے کیا بات بتانی ہے اسے اس سے کیا بات چھپانی ہے زباں ...

    مزید پڑھیے

    لکیر سنگ کو عنقا مثال ہم نے کیا

    لکیر سنگ کو عنقا مثال ہم نے کیا بھلا دیا اسے دل سے کمال ہم نے کیا شروع اس نے کیا تھا تماشہ قربت کا پھر اس کے بعد تو سارا دھمال ہم نے کیا الٹ کے رکھ دیے ہم نے جنوں کے سارے اصول جنوب دشت کو شہر شمال ہم نے کیا فروغ زخم سے روشن رکھا سیاہی کو عطائے ہجر کو نجم وصال ہم نے کیا بسا لیا تری ...

    مزید پڑھیے

    ہر سانس جو آتی ہے ستم گار قفس میں

    ہر سانس جو آتی ہے ستم گار قفس میں کھینچے ہے مری جان سر دار قفس میں دیکھے بھی تو کیا اپنی مسیحائی کا انجام جھانکے بھی تو کیا نرگس بیمار قفس میں اطراف ہیں طاقت کے تکبر کی سلاخیں ظالم ہے خود اپنا ہی گرفتار قفس میں پر کاٹنے والے کو یہ معلوم نہیں ہے رکتے ہیں کہیں عزم کے پر دار قفس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4