نظر میں صلح بھی سر پر لہو بھی دیکھتا ہے
نظر میں صلح بھی سر پر لہو بھی دیکھتا ہے
مجھے تو رشک سے میرا عدو بھی دیکھتا ہے
میں شورشوں میں بھی دل کو قریب رکھتا ہوں
یہی تو ہے جو پس ہاو ہو بھی دیکھتا ہے
چراغ انہیں کی وساطت سے جل رہا ہے مگر
کبھی ہواؤں کو یہ تند خو بھی دیکھتا ہے
مجھے یہ موتی سمندر یوں ہی نہیں دیتا
وہ میرے حوصلے بھی جستجو بھی دیکھتا ہے
یہ دل اسیر ترے نقش پا کا ہے لیکن
جو چوک جائے تو پھر چار سو بھی دیکھتا ہے
مرے جنون کو دونوں عزیز ہیں جاناں
یہ دشت و در ہی نہیں آب جو بھی دیکھتا ہے
ہزار برگ و ثمر جمع ہو گئے ارشدؔ
مگر یہ دل کہ مآل نمو بھی دیکھتا ہے