ہر سانس جو آتی ہے ستم گار قفس میں
ہر سانس جو آتی ہے ستم گار قفس میں
کھینچے ہے مری جان سر دار قفس میں
دیکھے بھی تو کیا اپنی مسیحائی کا انجام
جھانکے بھی تو کیا نرگس بیمار قفس میں
اطراف ہیں طاقت کے تکبر کی سلاخیں
ظالم ہے خود اپنا ہی گرفتار قفس میں
پر کاٹنے والے کو یہ معلوم نہیں ہے
رکتے ہیں کہیں عزم کے پر دار قفس میں
یہ پھول ہیں یہ سبزہ ہے یہ باد صبا ہے
ارمان سنجو لائے ہیں گھر بار قفس میں
آزادی بھی حاضر ہے تو پرواز بھی موجود
خوابوں نے لگا رکھا ہے دربار قفس میں
صیاد ہمیں تیری خدائی بھی تھی تسلیم
ہوتا جو تصور بھی گرفتار قفس میں