جان کا آزار ہے بیماریٔ دنیا نہیں

جان کا آزار ہے بیماریٔ دنیا نہیں
ذات تک محدود ہو جائیں تو کچھ خطرا نہیں


اب حفاظت جتنی ہے محبوس ہو جانے میں ہے
خود کے باہر گھومنے پھرنے کا اب موقع نہیں


اس سے ملنا آبشاروں سے گزرنا تھا مگر
خوف کا وہ کون سا طوفاں تھا جو آیا نہیں


اب کے بچھڑے کب ملیں گے اب کی بار اک یہ سوال
ہم نے بھی پوچھا نہیں اس نے بھی بتلایا نہیں


معتبر کتنا بھی ہو ہر واسطہ مشکوک ہے
جو تصور میں لکھا وہ خط بھی پہنچایا نہیں


مجھ میں اک بچہ جو مضمر ہے بہت مسرور ہے
ان دنوں دنیا سے اس کا مطلقاً رشتا نہیں


مسئلہ کوئی بھی ہو ارشدؔ محیط عشق ہے
جو غزل کا راہرو ہو راہ سے ہٹتا نہیں