Arshad Abdul Hamid

ارشد عبد الحمید

معروف شاعر اور ناقد

Well-knwn poet and critic

ارشد عبد الحمید کی غزل

    شرط دیوار و در و بام اٹھا دی ہے تو کیا

    شرط دیوار و در و بام اٹھا دی ہے تو کیا قید پھر قید ہے زنجیر بڑھا دی ہے تو کیا اب بھی تن تیغ سے لڑ جائے تو چھن بولتا ہے وقت نے اس پہ اگر دھول جما دی ہے تو کیا میرے خسرو نے مجھے غم بھی زیادہ بخشا دولت عشق اگر مجھ کو سوا دی ہے تو کیا ہم بھی تیار ہیں پھر جان لٹانے کے لیے سامنے پھر وہی ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی عمر بھر ترے رنگ و بو سے مرے لہو کی وفا رہے

    یوں ہی عمر بھر ترے رنگ و بو سے مرے لہو کی وفا رہے میں چراغ بن کے جلا کروں تو گلاب بن کے کھلا رہے وہ زمین ہو کہ ہو آسماں یہ دیا ہمیشہ جلا رہے میں کسی سفر میں رہوں مگر مرے ساتھ ماں کی دعا رہے مری کمتری کی بساط ہی تری برتری کی دلیل ہے میں نشیب میں نہ رہوں اگر تو فراز تیرا دبا رہے نئے ...

    مزید پڑھیے

    وحشی عشق جنوں کم بھی نہیں کرتا ہے

    وحشی عشق جنوں کم بھی نہیں کرتا ہے اور یوں بھی ہے کہ اب رم بھی نہیں کرتا ہے توڑ بھی لیتا ہے وہ ربط عنایت ہم سے رشتۂ درد کو محکم بھی نہیں کرتا ہے اس کا شکوہ نہیں کر سکتے کہ وہ دل کے تئیں خوش نہیں کرتا تو برہم بھی نہیں کرتا ہے مجھے دیوار انا سے وہ گراتا بھی نہیں اور اونچا مرا پرچم ...

    مزید پڑھیے

    غلط نہیں ہے دل صلح خو جو بولتا ہے

    غلط نہیں ہے دل صلح خو جو بولتا ہے مگر یہ حرف بغاوت لہو جو بولتا ہے مرے اجڑنے کی تکمیل کب ہوئی جاناں درخت یاد کی ٹہنی پہ تو جو بولتا ہے سر سکوت عدم کس کے ہونٹ ہلتے ہیں کوئی تو ہے پس دیوار ہو جو بولتا ہے زمانے تیری حقیقت سمجھ میں آتی ہے ہوا کی تھاپ سے خالی سبو جو بولتا ہے نفاستوں ...

    مزید پڑھیے

    اداس رات کو مہکائیں کوئی چارا کریں

    اداس رات کو مہکائیں کوئی چارا کریں خیال یار کو خوشبو کا استعارا کریں بلا کی تیرگی ہے چشم ماہ کو سوچیں شعاع خواب طرح دار کو ستارا کریں مہک رتوں کی بلائے تصرفوں کی طرف کٹیلے تار مگر اور ہی اشارا کریں خزاں کے دن کسی پیلے پہاڑ جیسے دن شگفت گل تری امید پر گزارا کریں ہمارے عشق کے ...

    مزید پڑھیے

    مرے خیمے خستہ حال میں ہیں مرے رستے دھند کے جال میں ہیں

    مرے خیمے خستہ حال میں ہیں مرے رستے دھند کے جال میں ہیں مجھے شام ہوئی ہے جنگل میں مرے سارے ستارے زوال میں ہیں مجھے رنگوں سے کوئی شغل نہیں مجھے خوشبو میں کوئی دخل نہیں مرے نام کا کوئی نخل نہیں مرے موسم خاک ملال میں ہیں آکاش ہے قدموں کے نیچے دریا کا پانی سر پر ہے اک مچھلی ناؤ پہ ...

    مزید پڑھیے

    ہے ٹونک ارض پاک وہیں سے اٹھیں گے ہم

    ہے ٹونک ارض پاک وہیں سے اٹھیں گے ہم اٹھی جہاں سے خاک وہیں سے اٹھیں گے ہم دیوار مے کدہ کے ادھر سلسبیل ہے فرزندگان تاک وہیں سے اٹھیں گے ہم مدت سے بند ہے جو دریچہ بہار کا اے کنج ناتپاک وہیں سے اٹھیں گے ہم پیراہن فلک پہ جہاں خط نور ہے دامن ہے واں سے چاک وہیں سے اٹھیں گے ہم ہم نے ...

    مزید پڑھیے

    قدموں کو ٹھہرنے کا ہنر ہی نہیں آیا

    قدموں کو ٹھہرنے کا ہنر ہی نہیں آیا سب منزلیں سر ہو گئیں گھر ہی نہیں آیا تھی تیغ اسی ہاتھ میں قاتل بھی وہی تھا جو ہاتھ کہ مقتل میں نظر ہی نہیں آیا گھر کھود دیا سارا خزانے کی ہوس میں نیو آ گئی تہہ خانے کا در ہی نہیں آیا کیا شاخوں پہ اترائیے کیا کیجے گلوں کا پیڑوں پہ اگر کوئی ثمر ہی ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سا بیتاب یہاں کوئی نہیں میرے سوا

    مجھ سا بیتاب یہاں کوئی نہیں میرے سوا یعنی برباد جہاں کوئی نہیں میرے سوا روشنی تھی تو کئی سائے نظر آتے تھے تیرگی ہے تو یہاں کوئی نہیں میرے سوا بھیڑ میں ایک طرف گوشۂ اخلاص بھی ہے غور سے دیکھ وہاں کوئی نہیں میرے سوا شہر میرے ہی بھروسے پہ ہو خفتہ جیسے ہدف شور سگاں کوئی نہیں میرے ...

    مزید پڑھیے

    ملے جو اس سے تو یادوں کے پر نکل آئے

    ملے جو اس سے تو یادوں کے پر نکل آئے اس اک مقام پہ کتنے سفر نکل آئے اجاڑ دشت میں بس جائے میری ویرانی عجب نہیں کہ یہیں کوئی گھر نکل آئے بس ایک لمحے کو چمکی تھی اس کی تیغ نظر خلائے وقت میں قرنوں کے سر نکل آئے مچان باندھنے والے نشانہ چوک گئے کہ خود مچان کی جانب سے ڈر نکل آئے شہید ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4