Arshad Abdul Hamid

ارشد عبد الحمید

معروف شاعر اور ناقد

Well-knwn poet and critic

ارشد عبد الحمید کے تمام مواد

37 غزل (Ghazal)

    رکتے ہوئے قدموں کا چلن میرے لیے ہے

    رکتے ہوئے قدموں کا چلن میرے لیے ہے سیارۂ حیرت کی تھکن میرے لیے ہے کوئی مرا آہو مجھے لا کر نہیں دیتا کہتے تو سبھی ہیں کہ ختن میرے لیے ہے تپ سی مجھے آ جاتی ہے آغوش میں اس کی وہ برف کے گالے سا بدن میرے لیے ہے ہیں جوئے تب و تاب پہ انوار کے پیاسے اور شام کا یہ سانولا پن میرے لیے ...

    مزید پڑھیے

    عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا

    عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا واقعہ ہے تو کسی طور بیاں بھی ہوگا دل عطیہ کہیں کرتا تو پریشاں ہوگا خیر و خوبی سے ہی ہوگا وہ جہاں بھی ہوگا ایک دن دیکھنا رک جائیں گے دریا سارے ایک دن دیکھنا یہ دشت رواں بھی ہوگا آپ دنیا کو محبت کی دوا بیچتے ہیں آپ کے پاس علاج غم جاں بھی ہوگا ایک ...

    مزید پڑھیے

    جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں

    جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں کہ تیر و تار کو فتراک ہی سے باندھتے ہیں بیوں کو شاخ گل تر ہی راس آتی ہے اگرچہ گھونسلے خاشاک ہی سے باندھتے ہیں فلک سے نور و تمازت تو لیتے ہیں لیکن شجر جڑوں کو فقط خاک ہی سے باندھتے ہیں لہو سے صرف نظر کی عجب روایت ہے امید نشہ یہاں تاک ہی سے ...

    مزید پڑھیے

    مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا

    مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا سفر ہی شرط ہے تو پھر عروج کیا زوال کیا فراق ساعتوں کے زخم روح تک پہنچ چکے میسر آئیں بھی تو اب مساعیٔ وصال کیا ہنر کو دھوپ جنگلوں کی مسکراہٹوں میں ہے گلاب بستیوں میں ہنستے رہنے کا کمال کیا امید ہی تو دل شجر کی آخری اساس تھی شگوفہ یہ بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو تقدیر نے یوں بے سر و آثار کیا

    مجھ کو تقدیر نے یوں بے سر و آثار کیا ایک دروازہ دعا کا تھا سو دیوار کیا خواب آئندہ ترے لمس نے سرشار کیا خشک بادل تھے ہمیں تو نے گہر بار کیا دیکھنے کی تھی نگاہوں میں انا کی صورت اس گرفتار نے جب مجھ کو گرفتار کیا مدتوں گھاؤ کیے جس کے بدن پر ہم نے وقت آیا تو اسی خواب کو تلوار ...

    مزید پڑھیے

تمام