Arshad Abdul Hamid

ارشد عبد الحمید

معروف شاعر اور ناقد

Well-knwn poet and critic

ارشد عبد الحمید کی غزل

    رکتے ہوئے قدموں کا چلن میرے لیے ہے

    رکتے ہوئے قدموں کا چلن میرے لیے ہے سیارۂ حیرت کی تھکن میرے لیے ہے کوئی مرا آہو مجھے لا کر نہیں دیتا کہتے تو سبھی ہیں کہ ختن میرے لیے ہے تپ سی مجھے آ جاتی ہے آغوش میں اس کی وہ برف کے گالے سا بدن میرے لیے ہے ہیں جوئے تب و تاب پہ انوار کے پیاسے اور شام کا یہ سانولا پن میرے لیے ...

    مزید پڑھیے

    عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا

    عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا واقعہ ہے تو کسی طور بیاں بھی ہوگا دل عطیہ کہیں کرتا تو پریشاں ہوگا خیر و خوبی سے ہی ہوگا وہ جہاں بھی ہوگا ایک دن دیکھنا رک جائیں گے دریا سارے ایک دن دیکھنا یہ دشت رواں بھی ہوگا آپ دنیا کو محبت کی دوا بیچتے ہیں آپ کے پاس علاج غم جاں بھی ہوگا ایک ...

    مزید پڑھیے

    جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں

    جنوں کے طور ہم ادراک ہی سے باندھتے ہیں کہ تیر و تار کو فتراک ہی سے باندھتے ہیں بیوں کو شاخ گل تر ہی راس آتی ہے اگرچہ گھونسلے خاشاک ہی سے باندھتے ہیں فلک سے نور و تمازت تو لیتے ہیں لیکن شجر جڑوں کو فقط خاک ہی سے باندھتے ہیں لہو سے صرف نظر کی عجب روایت ہے امید نشہ یہاں تاک ہی سے ...

    مزید پڑھیے

    مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا

    مسافتوں میں دھوپ اور چھاؤں کا سوال کیا سفر ہی شرط ہے تو پھر عروج کیا زوال کیا فراق ساعتوں کے زخم روح تک پہنچ چکے میسر آئیں بھی تو اب مساعیٔ وصال کیا ہنر کو دھوپ جنگلوں کی مسکراہٹوں میں ہے گلاب بستیوں میں ہنستے رہنے کا کمال کیا امید ہی تو دل شجر کی آخری اساس تھی شگوفہ یہ بھی ہو ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو تقدیر نے یوں بے سر و آثار کیا

    مجھ کو تقدیر نے یوں بے سر و آثار کیا ایک دروازہ دعا کا تھا سو دیوار کیا خواب آئندہ ترے لمس نے سرشار کیا خشک بادل تھے ہمیں تو نے گہر بار کیا دیکھنے کی تھی نگاہوں میں انا کی صورت اس گرفتار نے جب مجھ کو گرفتار کیا مدتوں گھاؤ کیے جس کے بدن پر ہم نے وقت آیا تو اسی خواب کو تلوار ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بھی شے ہو میاں جان سے پیاری کسے ہے

    کوئی بھی شے ہو میاں جان سے پیاری کسے ہے جان ہاری ہے تو یہ دیکھیے ہاری کسے ہے کورنش گل کو کرے کلیوں کو آداب کہے ہوش یہ مملکت باد بہاری کسے ہے دل بھی بس ایک نمونہ ہے کہ دنیا پہ مٹا نذر زیبا تھی کسے اور گزاری کسے ہے ایک کھونٹے سے بندھے دشت و دمن دیکھے ہیں اب میسر رم آہوئے تتاری کسے ...

    مزید پڑھیے

    چراغ درد کہ شمع طرب پکارتی ہے

    چراغ درد کہ شمع طرب پکارتی ہے اک آگ سی لب دریائے شب پکارتی ہے عدو سے جان بچی ہے نہ دوست بچھڑے ہیں یہ شام گریہ ہمیں بے سبب پکارتی ہے چراغ شوق پہ رہ رہ کے نور آتا ہے ہوا بہ طرز رخ و چشم و لب پکارتی ہے شہید آب و نمک ہیں سو بڑھتے جاتے ہیں شکست و فتح پیادوں کو کب پکارتی ہے صدائیں دے کے ...

    مزید پڑھیے

    جنس مخلوط ہیں اور اپنے ہی آزار میں ہیں

    جنس مخلوط ہیں اور اپنے ہی آزار میں ہیں ہم کہ سرکار سے باہر ہیں نہ سرکار میں ہیں آب آتے ہی چمک اٹھتے ہیں سب نقش و نگار خاک میں بھی وہی جوہر ہیں جو تلوار میں ہیں سب فروشندۂ حیرت ہوں ضروری تو نہیں ہم سے بے زار بھی اس رونق بازار میں ہیں حلقۂ دل سے نہ نکلو کہ سر کوچۂ خاک عیش جتنے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    نفاذ نظم پر اصرار ہے ایسا نہیں لگتا

    نفاذ نظم پر اصرار ہے ایسا نہیں لگتا گلستاں میں کوئی سرکار ہے ایسا نہیں لگتا یہاں ہر جیب میں خوابوں کی زر مہریں کھنکتی ہیں یہ دنیا درد کا بازار ہے ایسا نہیں لگتا ہم اپنی جھونک میں آگے کی جانب بڑھتے جاتے ہیں ہمارے سامنے دیوار ہے ایسا نہیں لگتا سر پندار سے پائے جنوں کا ربط غائب ...

    مزید پڑھیے

    گھٹائیں گھرتی ہیں بجلی کڑک کے گرتی ہے

    گھٹائیں گھرتی ہیں بجلی کڑک کے گرتی ہے یہ کس کی پیاس ہے جو بے قرار پھرتی ہے عجیب خوف کی بستی ہے یہ دیا ہی نہیں ہوا بھی خواہش دل کو چھپائے پھرتی ہے نظر نہ پھیر ندامت کو سیر ہونے دے یہ بدلی دل میں کہاں روز روز گھرتی ہے سمیٹ لیتی ہے ہر شے کو اپنے پیکر میں شبیہ کس کی ہے جو پتلیوں میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4