Arshad Abdul Hamid

ارشد عبد الحمید

معروف شاعر اور ناقد

Well-knwn poet and critic

ارشد عبد الحمید کی غزل

    سخن کے چاک میں پنہاں تمہاری چاہت ہے

    سخن کے چاک میں پنہاں تمہاری چاہت ہے وگرنہ کوزہ گری کی کسے ضرورت ہے زمیں کے پاس کسی درد کا علاج نہیں زمین ہے کہ مرے عہد کی سیاست ہے یہ انتظار نہیں شمع ہے رفاقت کی اس انتظار سے تنہائی خوبصورت ہے میں کیسے وار دوں تجھ پر مرے ستارۂ شام یہ حرف خواب تو اک چاند کی امانت ہے میں خاک خواب ...

    مزید پڑھیے

    تمام شہر کی آنکھوں کا ماہتاب ہوا

    تمام شہر کی آنکھوں کا ماہتاب ہوا میں جب سے اس کی نگاہوں میں انتخاب ہوا ہوا کے کاندھوں نے پہنچایا آسمانوں تک میں برگ سبز تھا سوکھا تو آفتاب ہوا پلٹ کے دیکھوں تو مجھ کو سزائیں دیتا ہے عجب ستارہ رہ غم میں ہم رکاب ہوا یوں قوس چشم میں آیا وہ بارشوں کی طرح کہ حرف دید کئی رنگوں کی ...

    مزید پڑھیے

    بہ ہر طریق اسے مسمار کرتے رہنا ہے

    بہ ہر طریق اسے مسمار کرتے رہنا ہے کبھی سخن تو کبھی وار کرتے رہنا ہے دروں کے واسطے دیوار چاہیے جاناں سو فرش خواب کو دیوار کرتے رہنا ہے سحر کے معرکۂ نیک و بد سے کیا مطلب ہمارا کام تو بیدار کرتے رہنا ہے وہ ایک درد جو صیقل نہیں ہوا اب تک اسی کو آئنۂ یار کرتے رہنا ہے یہی ہے ورثۂ ...

    مزید پڑھیے

    اسے تیرے غم کی خبر نہ ہو تو ہر ایک غم کو چھپائے رکھ

    اسے تیرے غم کی خبر نہ ہو تو ہر ایک غم کو چھپائے رکھ وہ ہری رتوں کا گلاب ہے اسے دھوپ رت سے بچائے رکھ وہ جو ایک بار چلا گیا تو کبھی پلٹ کے نہ آئے گا اسے روٹھ جانے سے روک لے یہ دلوں کا ربط بنائے رکھ یہی چاہتوں کا اصول ہے کہ ہتھیلیوں پہ لہو سجا اسے یاد رکھنے کی آرزو ہے تو اپنے دل کو ...

    مزید پڑھیے

    خاموشی تک تو ایک صدا لے گئی مجھے

    خاموشی تک تو ایک صدا لے گئی مجھے پھر اس سے آگے طبع رسا لے گئی مجھے کیا آنکھ تھی کہ موج بقا کی طرح ملی کیا موج تھی کہ مثل فنا لے گئی مجھے مٹی کو چوم لینے کی حسرت ہی رہ گئی ٹوٹا جو شاخ سے تو ہوا لے گئی مجھے دشت جنوں سے آئی تھی بستی میں باد شوق لوٹی تو اپنے ساتھ بہا لے گئی مجھے اے ...

    مزید پڑھیے

    ہوائے حرص و ہوس سے مفر بھی کرنا ہے

    ہوائے حرص و ہوس سے مفر بھی کرنا ہے اسی درخت کے سائے میں گھر بھی کرنا ہے انا ہی دوست انا ہی حریف ہے میری اسی سے جنگ اسی کو سپر بھی کرنا ہے چل آ تجھے کسی محفوظ گھر میں پہنچا دوں پھر اس کے بعد مجھے تو سفر بھی کرنا ہے یہی نہیں کہ پہنچنا ہے آسمانوں پر دعائے وصل تجھے اب اثر بھی کرنا ...

    مزید پڑھیے

    میرے اشعار تموج پہ جو آئے ہوئے ہیں

    میرے اشعار تموج پہ جو آئے ہوئے ہیں آب حیرت سے یہ مضمون اٹھائے ہوئے ہیں شوخیاں کام نہ آئیں تو حیا دھر لے گی اس نے آنکھوں کو کئی داؤ سکھائے ہوئے ہیں کچھ ستارے مری پلکوں پہ چمکتے ہیں ابھی کچھ ستارے مرے سینے میں سمائے ہوئے ہیں اب وہ انسان کہاں جن سے فرشتے شرمائیں ہم تو انسان کا بس ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4