Arsh Sultanpuri

عرش سلطانپوری

عرش سلطانپوری کی نظم

    شور دروں

    زرد تاروں سے نکل کر روشنی بھی ڈھونڈھتی ہے راہ شاید سو بکھر جاتی ہے ہر اک سمت گویا ڈھونڈ لے گی وہ ہر اک منزل ہر اک رستے پہ چل کے کاش میں بھی دیکھ پاتا ساری راہوں پہ سفر کر جان پاتا چھوڑ آیا ہوں میں کیا کیا اور کیا کیا تک رہا ہو میری راہیں روز محشر تک خدایا کون لیکن چل سکا ہے کون چل ...

    مزید پڑھیے

    پہچان

    حادثوں میں کوئی شخص نہیں مرتا لوگ مرتے ہیں بھیڑ مرتی ہے اور بھیڑ کی کوئی پہچان نہیں ہوتی ان ستاروں کی طرح رات جو ستارہ زیادہ چمکے تم سمجھنا میں وہی ہوں

    مزید پڑھیے

    مجاز کی یاد میں

    میری سب مجبوریاں کہتی ہیں صحراؤں میں چل پھر انہیں تنہائیوں میں پھر سے آزاروں میں چل یا شبستان دگر میں موت کے باغوں میں چل اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں صبح نو کی حسرتیں سب شام ہو کے رہ گئیں آرزوئیں خواہشیں آلام ہو کے رہ گئیں ساری خوشیاں قیدیٔ ارقام ہو کے رہ گئیں اے غم ...

    مزید پڑھیے

    آپ کے نام

    تری چشم خنداں ترا یہ تبسم فلک سے تکے ہیں سبھی ماہ و انجم بہاروں کے موسم تمہیں ڈھونڈتے ہیں تمہیں چاہتے ہیں تمہیں پوجتے ہیں تمہیں دیکھ کر یہ ہوا جھومتی ہے زمیں ناچتی ہے قدم چومتی ہے بتاؤں میں کیسے کہ کتنی حسیں ہو نہیں آفریں وہ جو تم سا نہیں ہو اگر چار ہی لفظ کہنے ہوں مجھ کو مری ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرا ہی اندھیرا ہے

    خواب عدم عالم خاموش ہے اس تیرگی کو چیرتی سکوت کو چھیڑتی بڑھ رہی ہے ریل میں خواب میں ہوں اور سب سو رہے ہیں کھڑا ہوں دروازے پہ کب سے نہ جانے کب سے کہیں دور دکھتی ہے کچھ روشنی کچھ عمارتیں کوئی بیداری کا آثار ٹمٹماتا ہے ایک جگنو کی مانند کتنی تیز جا رہی ہے ریل جو ہے ہی نہیں چھوٹ ...

    مزید پڑھیے