اندھیرا ہی اندھیرا ہے
خواب عدم
عالم خاموش ہے
اس تیرگی کو چیرتی
سکوت کو چھیڑتی
بڑھ رہی ہے ریل
میں خواب میں ہوں
اور سب سو رہے ہیں
کھڑا ہوں دروازے پہ
کب سے
نہ جانے کب سے
کہیں دور دکھتی ہے کچھ روشنی
کچھ عمارتیں
کوئی بیداری کا آثار
ٹمٹماتا ہے
ایک جگنو کی مانند
کتنی تیز جا رہی ہے ریل
جو ہے ہی نہیں چھوٹ رہا ہے پیچھے
کیوں
میں کیوں گھبراتا ہوں رفتار سے
رفتار زندگی سے
پیچھے چھوٹے گا سب
چھوٹ جائے
چاند دوڑ کر پیچھا کرتا ہے
اور یہ ہوا
میرے بالوں کے پیچ و خم کو خم کرتی
کھولتی ہے ایک روزن وقت کی دیوار میں
جس سے پھوٹ پھوٹ کر ماضی نکلتا ہے