شور دروں
زرد تاروں سے نکل کر روشنی بھی
ڈھونڈھتی ہے راہ شاید
سو بکھر جاتی ہے ہر اک سمت گویا
ڈھونڈ لے گی وہ ہر اک منزل ہر اک رستے پہ چل کے
کاش میں بھی دیکھ پاتا
ساری راہوں پہ سفر کر
جان پاتا
چھوڑ آیا ہوں میں کیا کیا
اور کیا کیا تک رہا ہو میری راہیں روز محشر تک خدایا
کون لیکن چل سکا ہے
کون چل سکتا ہے ہر راہ
خیر شاید
میں نہیں رکھ پایا وعدہ
اور کہتی ہے صبا پھر
چھوڑ دو اب
اٹھ چلو اب
یہ تصور بے معانی
یہ تکفر رائیگاں ہے