وہ جس کی داستاں پھیلی دل دیوانہ میرا تھا
وہ جس کی داستاں پھیلی دل دیوانہ میرا تھا
زبانیں دشمنوں کی تھیں مگر افسانہ میرا تھا
تڑپتا ہوں کہ اک ساغر کسی حاتم سے مل جائے
زوال آسماں دیکھو کبھی مے خانہ میرا تھا
بلا کی خامشی طاری تھی ہر سو تیری ہیبت سے
سر محفل جو گونجا نعرۂ مستانہ میرا تھا
کٹے یوں تو ہزاروں سر وفا کی کربلاؤں میں
ترے نیزے پہ جو ابھرا سر شاہانہ میرا تھا
فقیہ شہر کو سمجھو کہ ہم پکڑے گئے ناحق
شرابیں سب اسی کی تھیں بس اک پیمانہ میرا تھا
بنا ہے عرشؔ وہ منصف تو پھر یہ بھی کبھی دیکھے
ہوا ہے بند جو مجھ پر وہی ویرانہ میرا تھا