آخر ہم نے طور پرانا چھوڑ دیا

آخر ہم نے طور پرانا چھوڑ دیا
اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا


منظر بھی سب بانجھ رتوں میں ڈوب گئے
آنکھوں پر بھی پہرہ بٹھانا چھوڑ دیا


ختم ہوئی شوریدہ سری لب سل سے گئے
محفل محفل ہنسنا ہنسانا چھوڑ دیا


نظروں پر کھڑکی کے پٹ دیوار کیے
دروازوں میں اس کا سجانا چھوڑ دیا


جب سے ہوا احساس دیا ہونے کا ہمیں
تیز ہوا کے سامنے جانا چھوڑ دیا


ڈر تھا کہیں کچھ اپنے لیے بھی مانگ نہ لیں
ہم نے دعا کو ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا


عرشؔ ہوا اک لفظ جو منہا یادوں سے
ہم نے گھر کو قفل لگانا چھوڑ دیا