دل کہ آرائش عالم کا تماشا دیکھے
دل کہ آرائش عالم کا تماشا دیکھے
گر کبھی خود پہ نظر جائے تو صحرا دیکھے
آنکھ وہ آنکھ جو ہر قطرے میں دریا دیکھے
تو مگر سامنے آ جائے تو پھر کیا دیکھے
خواب میں ہو تو یہ دل دیکھے تری دید کے خواب
خواب سے جاگے تو اک خواب سی دنیا دیکھے
جو سمجھتا ہے کہ کھل جاتا ہے فریاد سے بخت
سوئے افلاک کبھی ہاتھ وہ پھیلا دیکھے
ابتلا میں ہیں سبھی راہ رو منزل شوق
کس کو فرصت کہ مرے پاؤں کا کانٹا دیکھے
عرشؔ اگر لفظ و معانی کے ہو تم پیغمبر
ایک تصویر بنا جاؤ کہ دنیا دیکھے