تابندہ حسن راز بہاراں ہمیں سے ہے
تابندہ حسن راز بہاراں ہمیں سے ہے
نظم خزاں جو ہے تو ہراساں ہمیں سے ہے
اپنے لہو کا رنگ ملا ہے بہار میں
لالہ مثال شعلۂ رقصاں ہمیں سے ہے
جلتا ہے اپنا خوں ہی سر بزم رات بھر
اے حسن بے خبر یہ چراغاں ہمیں سے ہے
ہم آج شہر یار کے معتوب ہیں تو کیا
ہر دم وہ اپنے شہر میں ترساں ہمیں سے ہے
رکھی ہے ہم نے اپنی زباں پر وفا کی تیغ
نام نکوئے یار پر افشاں ہمیں سے ہے
ہر رنگ میں رہے ہمیں سر چشمۂ حیات
ہے کائنات ہم سے تو یزداں ہمیں سے ہے
مرہون شوق بادہ گساراں ہے دور جام
مینا حضور یار غزل خواں ہمیں سے ہے
شہرا ترا گیا مرے نغموں کے ساتھ ساتھ
عالم کو تیری دید کا ارماں ہمیں سے ہے
آنکھوں میں عرشؔ درد نے بھڑکائے ہیں کنول
آب رواں میں آتش سوزاں ہمیں سے ہے