درد کو ہم زندگی کا کیف و کم کہتے رہے

درد کو ہم زندگی کا کیف و کم کہتے رہے
خامشی کے ساز پر روداد غم کہتے رہے


گوش بر آواز پوری بزم میں کوئی نہ تھا
داستان آرزو کہنے کو ہم کہتے رہے


انتہائے یاس میں چلتے رہے بے مدعا
دیکھنے والے ہمیں ثابت قدم کہتے رہے


دل فریب زندگی میں بے طرح الجھا رہا
عشق کو آزاد پتھر کو صنم کہتے رہے


کم سوادوں کو مسیحا ناخداؤں کو خدا
بود کو نابود ہستی کو عدم کہتے رہے


اپنے خوں سے داستان غم رقم کرتے رہے
لوح دل کو نوک خنجر کو قلم کہتے رہے


آرزو کے کتنے بت خانے تھے اس دل میں نہاں
عرشؔ جس دل کو سبھی طاق حرم کہتے رہے