بندھا ہے عہد جنوں چشم اعتبار کے ساتھ
بندھا ہے عہد جنوں چشم اعتبار کے ساتھ
اسے کہو کہ جئے عزم استوار کے ساتھ
نہ ہو سکی کبھی توفیق درگزر کی اسے
نہ چل سکے کبھی ہم خود بھی اقتدار کے ساتھ
فقیہ شہر سے کہنا کہ دل کشادہ رکھے
ملا ہے منصب اعلیٰ جو اختیار کے ساتھ
نشان ناقۂ لیلےٰ پہنچ سے دور نہیں
کبھی چلو تو سہی دو قدم غبار کے ساتھ
تمام عمر رہا وہ رہین منت غیر
اسے تو مرنا بھی آیا نہیں وقار کے ساتھ
ازل سے عرشؔ اک آوارگی نصیب میں ہے
ہوائے دشت کو نسبت نہیں قرار کے ساتھ