عقیل عباس کی غزل

    چھوڑیئے آپ کا اس بات سے کیا لینا ہے

    چھوڑیئے آپ کا اس بات سے کیا لینا ہے اک برہمن کو مساوات سے کیا لینا ہے خاک کو خاک کا پیوند لگے گا اور بس ہم کو اس ارض و سماوات سے کیا لینا ہے آپ تو سوچ کے آئے تھے یہاں کیا ہوگا آپ کو یوں بھی مضافات سے کیا لینا ہے آگ کی سرخ لپٹ نے مجھے پاگل رکھا خون کی لہر کو اس گھات سے کیا لینا ...

    مزید پڑھیے

    اس سے پہلے کہ کہانی سے کہانی نکلے

    اس سے پہلے کہ کہانی سے کہانی نکلے آ مرے دل میں اتر آنکھ سے پانی نکلے اتنی عجلت میں تلاشی نہیں لی جا سکتی سانپ کو حکم کرو رات کی رانی نکلے خیر کی ساری دعاؤں کا بھلا ہو لڑکی ایک بوسہ دم رخصت کہ گرانی نکلے اس لیے بھی یہ بدن کھینچنا پڑتا ہے مجھے جتنے سکے تھے مرے پاس زمانی نکلے اس ...

    مزید پڑھیے

    سانپ نے غار میں رہائش کی

    سانپ نے غار میں رہائش کی اور دیدار کی گزارش کی سبزگی نے غلاف کاڑھ لیا اور نعلین کی ستائش کی لب پہ نعت نبی رواں رہنا اور سینے میں آگ خواہش کی غار میں دوسرا بھی تھا کوئی جس نے دیوار پر نگارش کی پیش رو بارگاہ میں پہنچے یعنی بار دگر سفارش کی

    مزید پڑھیے

    دھیان میں کون درندہ ہے جو بیدار ہوا

    دھیان میں کون درندہ ہے جو بیدار ہوا میں کسی بو کی جلن پا کے خبردار ہوا باغ کی سمت سے آتی ہے ہوا سہمی ہوئی کون اس حبس کے موسم میں صداکار ہوا اس جزیرے کی طرف سوچ سمجھ کر جانا جو ترے موج میں آنے سے نمودار ہوا تم کو لگتا ہے کہ آسان ہے دنیا داری کار دنیا میں پٹا ہوں تو وفادار ہوا اس ...

    مزید پڑھیے

    وہ گھوڑیوں کی طرح شوخ اور لچیلی تھی

    وہ گھوڑیوں کی طرح شوخ اور لچیلی تھی میں شہسوار تھا لیکن گرفت ڈھیلی تھی لگا ہوا ہے زمانہ بڑائی میں جس کی اسی نے شہر سے پہلی لگان بھی لی تھی وہ جا چکی تو اچانک مجھے خیال آیا وہ گھاس جس پہ میں بیٹھا تھا کتنی گیلی تھی ہمارا خون سمے کا سفوف جذب کرے ہماری چھال کسی بد گماں نے چھیلی ...

    مزید پڑھیے

    وہ تو میں آگ جلانے سے میاں واقف تھا

    وہ تو میں آگ جلانے سے میاں واقف تھا ورنہ تو اپنے قبیلے سے کہاں واقف تھا انت میں کیا ہوا راوی نے بتایا ہی نہیں یوں کہانی سے تو کہنے کو جہاں واقف تھا آگ میں کوئی بدن تھا کہ جو آزاد ہوا یعنی اعضا کے تناسب سے دھواں واقف تھا رات کتوں نے سڑک سر پہ اٹھا رکھی تھی اور آسیب کی آمد سے مکاں ...

    مزید پڑھیے

    منظر کی اوک سے بڑی اوچھی لپک اٹھی

    منظر کی اوک سے بڑی اوچھی لپک اٹھی ہم جھڑ چکے تو پیڑ کی ڈالی لچک اٹھی پانی کی پیش رفت نے سوکھا بھگا دیا بارش کے بعد گھاس کی ٹکڑی لہک اٹھی گوری نے پاؤں راہ کے پتھر پہ رکھ دیا یعنی کمر کے زور سے گاگر چھلک اٹھی ندی کا زور اب کوئی چھاتی پہ روک لے پشتہ بنا رہے تھے کہ مٹی سرک اٹھی پورے ...

    مزید پڑھیے

    زخم کے ہونٹ پر لعاب اس کا

    زخم کے ہونٹ پر لعاب اس کا خوش بہت ہے مجھے خوش آب اس کا اس نے اپلوں پہ دیگچی رکھی اور پکنے لگا شباب اس کا عشق نے پھر کسی کو بھیجا ہے خیر مقدم کرے چناب اس کا تجھ تمنا میں جو عبادت کی کیا تجھے بخش دوں ثواب اس کا قوس پر سے عمود اٹھتا ہوا یعنی پھر جل اٹھا ہے خواب اس کا دائرہ دائرے کو ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا تھا کہ کہنا بھلا دیا اس نے

    میں سوچتا تھا کہ کہنا بھلا دیا اس نے کواڑ کھول کے پردہ اٹھا دیا اس نے جو سوچتے تھے کہ بالغ نظر کہاں ہے کوئی وہ ہاتھ ملتے ہیں کیسا دلا دیا اس نے کہانیوں سے کشیدہ ملال کی قرأت اور اس کے بعد لطیفہ سنا دیا اس نے وہ بے جہت جو مری خواب گاہ تک پہنچی تو میری نیند میں رخنہ بنا دیا اس ...

    مزید پڑھیے

    عام سی ہے دراز قد بھی نہیں

    عام سی ہے دراز قد بھی نہیں پر محبت کی کوئی حد بھی نہیں سبزی مائل ہے آنکھ کا عدسہ اور اس پر کوئی عدد بھی نہیں تو نے پوچھا تو کہہ دیا جو تھا یعنی اندر کہیں حسد بھی نہیں اب دلائل کی پوٹلی کھولیں یہ حوالہ تو مستند بھی نہیں زخم سلنے سے کیا تلافی ہو داخلیت کی کوئی مد بھی نہیں

    مزید پڑھیے