وہ گھوڑیوں کی طرح شوخ اور لچیلی تھی

وہ گھوڑیوں کی طرح شوخ اور لچیلی تھی
میں شہسوار تھا لیکن گرفت ڈھیلی تھی


لگا ہوا ہے زمانہ بڑائی میں جس کی
اسی نے شہر سے پہلی لگان بھی لی تھی


وہ جا چکی تو اچانک مجھے خیال آیا
وہ گھاس جس پہ میں بیٹھا تھا کتنی گیلی تھی


ہمارا خون سمے کا سفوف جذب کرے
ہماری چھال کسی بد گماں نے چھیلی تھی


اب اس کا ڈھب بھی کوئی دیکھتا تو ہوگا ہی
جسے تراش کے قرنوں نے زہر پی لی تھی