منظر کی اوک سے بڑی اوچھی لپک اٹھی
منظر کی اوک سے بڑی اوچھی لپک اٹھی
ہم جھڑ چکے تو پیڑ کی ڈالی لچک اٹھی
پانی کی پیش رفت نے سوکھا بھگا دیا
بارش کے بعد گھاس کی ٹکڑی لہک اٹھی
گوری نے پاؤں راہ کے پتھر پہ رکھ دیا
یعنی کمر کے زور سے گاگر چھلک اٹھی
ندی کا زور اب کوئی چھاتی پہ روک لے
پشتہ بنا رہے تھے کہ مٹی سرک اٹھی
پورے بدن سے قافلے حرکت میں آ گئے
رانوں میں سرخ آب کی سازش بدک اٹھی
گردن کے جوڑ پر ترے بوسے کی بستگی
اک لمس اور کان کی لو تک دمک اٹھی