Aqeel Abbas Chughtai

عقیل عباس چغتائی

عقیل عباس چغتائی کی غزل

    خود اپنی ذات کا انکار کرنے والا ہے

    خود اپنی ذات کا انکار کرنے والا ہے کوئی تمام حدیں پار کرنے والا ہے ابھی نہ ہاتھ بڑھا پگڑیوں کی جانب تو کہ یہ تماشہ سوئے دار کرنے والا ہے کبھی کسی نے کیا ہے نہ کر سکے گا کوئی جو میرے ساتھ مرا یار کرنے والا ہے مجھے وہ ماتمی آنکھیں لگائے جا رہا ہے وہ میرے خواب عزادار کرنے والا ...

    مزید پڑھیے

    ایک دوجے کے قریں بیٹھ کے رو لیتے ہیں

    ایک دوجے کے قریں بیٹھ کے رو لیتے ہیں جہاں کہتا ہے وہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں میں بہت جلد زمانے سے بچھڑ جاؤں گا آئیے مجھ کو کہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں آج کا رونا کبھی کل پہ نہیں ٹالا ہے جہاں کا غم ہو وہیں بیٹھ کے رو لیتے ہیں مجھ کو معلوم ہے وہ اتنا نہ رو پائے گا اس لیے یار ہمیں بیٹھ کے ...

    مزید پڑھیے

    سوگواروں میں عزادار نہیں کوئی بھی

    سوگواروں میں عزادار نہیں کوئی بھی یعنی سچ ہے کہ مرا یار نہیں کوئی بھی خود کو اک عمر بنا دیکھے پریشان رکھا اب جو دیکھا پس دیوار نہیں کوئی بھی قہقہہ وار رلانے کی ریاضت ہے تری زندگی تجھ سا جفاکار نہیں کوئی بھی میں تو یوں مست ہوا لوگ تجھے یہ نہ کہیں کہ ترے عشق میں سرشار نہیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کری نگاہ و سماعت نے برتری تسلیم

    کری نگاہ و سماعت نے برتری تسلیم لبوں کے ساتھ تری بات بھی ہوئی تسلیم ہم ایسے لوگ پس جسم سانس لیتے ہیں ہماری موت بھی ہوتی ہے زندگی تسلیم چراغ ڈھونڈ کے لائے کوئی تو کہہ دینا ہماری آنکھ اندھیرے کو کر چکی تسلیم تم ایک بحر میں جوڑو دعا کے سارے حروف کہ آسمان پہ ہوتی ہے شاعری ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پیروں پہ کسی طور کھڑے ہوتے نہیں

    اپنے پیروں پہ کسی طور کھڑے ہوتے نہیں بوڑھے ہو جاتے ہیں ہم لوگ بڑے ہوتے نہیں صبر و خاموشی کی زنجیر جکڑ لیتی ہے اب کلائی میں بغاوت کے کڑے ہوتے نہیں حلقۂ عشق میں سب چاک دلاں ملتے ہیں اس قبیلے میں کوئی خاص دھڑے ہوتے نہیں ایسے اس شخص کے لہجے سے پگھل جاتے ہیں جیسے ہم لوگ کبھی ضد پہ ...

    مزید پڑھیے

    اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے

    اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں چیزیں اکثر پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا رائیگاں جاتی تھی ہر آنکھ ادب سے ...

    مزید پڑھیے

    میں سمجھتا تھا در و بام کہاں بولتے ہیں

    میں سمجھتا تھا در و بام کہاں بولتے ہیں پھر ترے بعد کھلا مجھ پہ کہ ہاں بولتے ہیں یہ جو دبتی ہے مرے شور میں آواز مری میری ہستی میں کہیں کار زیاں بولتے ہیں اس جہاں کے متوازی بھی جہاں ہے کوئی جو یہاں بول نہیں پاتے وہاں بولتے ہیں متصل اس کے لبوں سے ہے یہ کار آواز وہ اگر ہل نہ سکیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    رکھے ہیں چاک زماں پر فنا بقا اور میں

    رکھے ہیں چاک زماں پر فنا بقا اور میں امڈ رہے ہیں تماشائے ناروا اور میں پھر ایک روز خلا بھر گیا تھا کمرے میں کہ جذب ہو گئے دیوار میں صدا اور میں چراغ بجھتے رہے اور شہر جلتے رہے سکوت اوڑھ کے بیٹھے رہے خدا اور میں یہ دشت آج بھی ہم سے ہے بے خبر افسوس کہاں کی خاک اڑاتے رہے ہوا اور ...

    مزید پڑھیے

    اس لیے تیری ہوئی دشت ہنسائی بھائی

    اس لیے تیری ہوئی دشت ہنسائی بھائی تو نے جلدی میں ذرا خاک اڑائی بھائی آخر کار کوئی عذر اسے مل ہی گیا یہ محبت بھی کسی کام نہ آئی بھائی میں ہوں کونے میں پڑا ٹوٹا ہوا کنگن اور زندگی ایک حسینہ کی کلائی بھائی تب مرا سارا بدن کان میں تبدیل ہوا جب کسی نے مجھے آواز لگائی بھائی اول اول ...

    مزید پڑھیے