سوگواروں میں عزادار نہیں کوئی بھی

سوگواروں میں عزادار نہیں کوئی بھی
یعنی سچ ہے کہ مرا یار نہیں کوئی بھی


خود کو اک عمر بنا دیکھے پریشان رکھا
اب جو دیکھا پس دیوار نہیں کوئی بھی


قہقہہ وار رلانے کی ریاضت ہے تری
زندگی تجھ سا جفاکار نہیں کوئی بھی


میں تو یوں مست ہوا لوگ تجھے یہ نہ کہیں
کہ ترے عشق میں سرشار نہیں کوئی بھی


آنکھ لکھتی ہے شب ہجر کا احوال عقیلؔ
یوں نہیں عشق کا اخبار نہیں کوئی بھی