کری نگاہ و سماعت نے برتری تسلیم
کری نگاہ و سماعت نے برتری تسلیم
لبوں کے ساتھ تری بات بھی ہوئی تسلیم
ہم ایسے لوگ پس جسم سانس لیتے ہیں
ہماری موت بھی ہوتی ہے زندگی تسلیم
چراغ ڈھونڈ کے لائے کوئی تو کہہ دینا
ہماری آنکھ اندھیرے کو کر چکی تسلیم
تم ایک بحر میں جوڑو دعا کے سارے حروف
کہ آسمان پہ ہوتی ہے شاعری تسلیم
عطا کی قدر بڑھاتی ہے اور محرومی
سو ایک اندھا بھی کرتا ہے روشنی تسلیم
دیار شعر میں پردہ بہت ضروری ہے
کہا سنا ہے سبھی رد ہے ان کہی تسلیم
چراغ ہوں سو مرا کام صرف جلنا ہے
کوئی کرے نہ کرے میری روشنی تسلیم
ابھی بھی کوئی خلا ہے عقیلؔ دنیا میں
ابھی بھی لگتا ہے دنیا نہیں ہوئی تسلیم