اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
اوڑھ لیتا ہے کوئی تیرگی شب سے پہلے
رونما ہوتے ہیں اثرات سبب سے پہلے
سب سے اونچا تھا زمانے میں تخیل میرا
حادثے مجھ پہ گرا کرتے تھے سب سے پہلے
ایک دوجے سے نمو پاتی ہیں چیزیں اکثر
پیاس کا نام کہاں ہوتا تھا لب سے پہلے
شعر نے حسن کی ترویج کا سامان کیا
رائیگاں جاتی تھی ہر آنکھ ادب سے پہلے
صبح کا بھولا ہوا آ تو گیا ہے واپس
مسئلہ یہ ہے کہ آیا نہیں شب سے پہلے
وہ جو دن رات کی ترتیب لگاتا ہے ابھی
جانے کیا کرتا تھا اس کار عجب سے پہلے
ناز برداری تری کرتے بہت کرتے مگر
زندگی ہم کو ملی ہے تو طلب سے پہلے
آج کچھ اور ہی مقصد ہے چراغوں کا عقیلؔ
روشنی اتنی نہیں ہوتی تھی اب سے پہلے