میں سمجھتا تھا در و بام کہاں بولتے ہیں

میں سمجھتا تھا در و بام کہاں بولتے ہیں
پھر ترے بعد کھلا مجھ پہ کہ ہاں بولتے ہیں


یہ جو دبتی ہے مرے شور میں آواز مری
میری ہستی میں کہیں کار زیاں بولتے ہیں


اس جہاں کے متوازی بھی جہاں ہے کوئی
جو یہاں بول نہیں پاتے وہاں بولتے ہیں


متصل اس کے لبوں سے ہے یہ کار آواز
وہ اگر ہل نہ سکیں ہم بھی کہاں بولتے ہیں


اک زمانے کو بیاں کرتے ہیں لفظوں کے بغیر
مجھ سخن ساز سے بہتر تو نشاں بولتے ہیں


دیکھ اک دوجے سے ٹکرانے لگیں آوازیں
اتنا بے ڈھنگ ترے لوگ یہاں بولتے ہیں


اک خلا ہے جو صداؤں کو نگل جاتا ہے
کوئی سن ہی نہیں پاتا جو مکاں بولتے ہیں


آگ روتی ہے تو ہم کو بھی رلا دیتی ہے
یہ تو آنسو ہیں جنہیں لوگ دھواں بولتے ہیں


اشک در اشک سلاست ہے بہاؤ میں عقیلؔ
مری آنکھوں کو تبھی چشم رواں بولتے ہیں