رکھے ہیں چاک زماں پر فنا بقا اور میں
رکھے ہیں چاک زماں پر فنا بقا اور میں
امڈ رہے ہیں تماشائے ناروا اور میں
پھر ایک روز خلا بھر گیا تھا کمرے میں
کہ جذب ہو گئے دیوار میں صدا اور میں
چراغ بجھتے رہے اور شہر جلتے رہے
سکوت اوڑھ کے بیٹھے رہے خدا اور میں
یہ دشت آج بھی ہم سے ہے بے خبر افسوس
کہاں کی خاک اڑاتے رہے ہوا اور میں
بدن کی ناؤ تھی گرداب لمس جوبن میں
عجب خمار میں ڈوبے تھے ناخدا اور میں
تھا ارتقائے سخن کوئی خامشی کا عمل
ہوئے ہیں وقف تحیر مری نوا اور میں
ذرا سی دیر مرا دھیان بٹ گیا تھا کہیں
بجھے ملے ہیں کسی آنکھ میں دیا اور میں
کچھ اس طرح سے ہوا کم ہمارا خالی پن
کہ ایک دوسرے میں بھر گئے خلا اور میں
ابھی خیال ہے تجسیم کی نظر سے پرے
ابھی ہیں ریت میں مستور آئنہ اور میں