اپنے پیروں پہ کسی طور کھڑے ہوتے نہیں

اپنے پیروں پہ کسی طور کھڑے ہوتے نہیں
بوڑھے ہو جاتے ہیں ہم لوگ بڑے ہوتے نہیں


صبر و خاموشی کی زنجیر جکڑ لیتی ہے
اب کلائی میں بغاوت کے کڑے ہوتے نہیں


حلقۂ عشق میں سب چاک دلاں ملتے ہیں
اس قبیلے میں کوئی خاص دھڑے ہوتے نہیں


ایسے اس شخص کے لہجے سے پگھل جاتے ہیں
جیسے ہم لوگ کبھی ضد پہ اڑے ہوتے نہیں


ٹھوکروں بعد کہیں نظروں میں آتے ہیں عقیلؔ
ہم انگوٹھی میں نگینے تو جڑے ہوتے نہیں