Anamta Ali

انعمتا علی

انعمتا علی کی غزل

    ہماری موت کا واحد ہے یہ گواہ بدن

    ہماری موت کا واحد ہے یہ گواہ بدن نہیں ہے روح پہ کوئی بھی زخم گاہ بدن ہماری آنکھ سے ظاہر ہو روشنی کیسے ہمارے سامنے رکھا گیا سیاہ بدن جو گونگے لوگوں کی بستی میں کوئی نام لیا سنائی دینے لگے مجھ کو بے پناہ بدن ہماری روح پہ نشتر چبھے اداسی کے ہزار آہوں پہ ماتم کدہ ہے آہ بدن اسے مرے ...

    مزید پڑھیے

    آتے ہیں کتنے خواب ترے روز و شب مجھے

    آتے ہیں کتنے خواب ترے روز و شب مجھے وحشت سی ہونے لگتی ہے کوئی عجب مجھے تم کو میں گر قبول ہوں ایسے ہی ٹھیک ہوں آتا نہیں سنورنے کا کوئی بھی ڈھب مجھے ظالم ہے بادشہ کہ ہے سب پہ فرات بند محسوس ہو رہے ہیں سبھی سوکھے لب مجھے بس کچھ دنوں کی بات ہے میں لوٹ آؤں گی ہرگز صدا نہ دے کوئی پیچھے ...

    مزید پڑھیے

    گویا کہ چھنی پیروں کے نیچے کی زمیں ہے

    گویا کہ چھنی پیروں کے نیچے کی زمیں ہے کیا پاس ترے جھوٹی تسلی بھی نہیں ہے ہم نے تو اسے کر ہی دیا دل سے بہت دور پر اس کا خیال اس کی محبت تو یہیں ہے معلوم ہے یا رب ہے تو شہ رگ سے قریں تر وہ شخص مگر جو مری دھڑکن کے قریں ہے ہیں آپ ہی کیوں حالت افسوس کی جا پر کیا ہوگی انعمؔ آپ کی جب اپنی ...

    مزید پڑھیے

    روشنی کی اشد ضرورت ہے

    روشنی کی اشد ضرورت ہے آپ کے پاس تھوڑی فرصت ہے آپ سے جھوٹ کہہ رہا تھا کوئی زندگی ڈھیر خوب صورت ہے ایک دوجے کو کھو دیا ہم نے اور یہ عجلت نہیں حماقت ہے اس کے میرے وصال میں حائل اور کچھ بھی نہیں ہے غربت ہے آپ جیسے سخن نگاروں کو آئنہ دیکھنے کی حاجت ہے اور کچھ ہو نہ ہو تمہارے پاس ایک ...

    مزید پڑھیے

    پہلے مجھ پر بہت فدا ہونا

    پہلے مجھ پر بہت فدا ہونا اس کی چاہت کا پھر فنا ہونا یہ بھی بخیے ادھیڑ دیتی ہے اس کو ہلکا نہ لے ہوا ہونا خود کو محروم روشنی رکھ کر کتنا مشکل ہے اک دیا ہونا اس سہولت سے زندگی کاٹی مجھ کو آیا نہ پارسا ہونا تو مری مشکلات کیا سمجھے تجھ کو آتا ہے بس خدا ہونا میری ترتیب سے رہی ...

    مزید پڑھیے

    گھپ خاموشی جیسے قبرستان میں ہوں

    گھپ خاموشی جیسے قبرستان میں ہوں کیا میں زندہ لاشوں کے استھان میں ہوں رات ڈھلے ویرانی ملنے آتی ہے جانتی ہے میں اس کے عقد امان میں ہوں سرد ہوائیں یاد اس کی بپھرا موسم وحشت‌ زیست بتا میں کس کے دھیان میں ہوں پھر سرسبز ہوئے جاتے ہیں سارے پیڑ لگتا ہے اک میں ہی نمک کی کان میں ...

    مزید پڑھیے

    جب ترے ہجر کے آثار نظر آتے ہیں

    جب ترے ہجر کے آثار نظر آتے ہیں مجھ کو پھولوں میں بھی پھر خار نظر آتے ہیں موند لیں اس لیے بربادی پہ آنکھیں میں نے میرے اپنے ہی ذمے دار نظر آتے ہیں یا وہی بغض وہی کینہ وہی نفرت ہے یا محبت کے بھی آثار نظر آتے ہیں میں ہواؤں کے تعاقب میں بھٹک جاتی ہوں پھر اشارے مجھے بیکار نظر آتے ...

    مزید پڑھیے

    رونے کا سلیقہ مجھے اسلاف نے بخشا (ردیف .. ن)

    رونے کا سلیقہ مجھے اسلاف نے بخشا یہ ماتمی آنکھیں مجھے ورثے میں ملی ہیں یہ کرب کی دنیا کا ہے نقشہ اسے دیکھو سب پرکھیں ہماری اسی شجرے میں ملی ہیں میں گھور کے دیکھوں تو برا مانتا ہے وہ کیسے کہوں یہ تلخیاں ترکے میں ملی ہیں خوابوں نے بھی مرنے کی ہی ٹھانی ہے بالآخر دو چار کی لاشیں ...

    مزید پڑھیے

    درون دل جو چراغ جلتے رہے مسلسل

    درون دل جو چراغ جلتے رہے مسلسل ہیں ان سے آنکھوں میں نور کے سلسلے مسلسل کہیں پہ مرتے ہیں بھوک سے کچھ یتیم بچے کہیں پہ کاسے ہیں سائلوں کے بھرے مسلسل مری اداسی پہ اس طرح تو اداس مت ہو کہ زخم رہتے نہیں ہیں اکثر ہرے مسلسل وہ خواب آنکھوں میں بھر سکے یا انہیں گنوا دے وہ اپنے ڈر پہ تو ...

    مزید پڑھیے

    گھر میں دراڑ ڈالتے رشتوں کی خیر ہو

    گھر میں دراڑ ڈالتے رشتوں کی خیر ہو اس آستیں میں آ بسے سانپوں کی خیر ہو وہ ٹوٹنے لگیں تو سہولت مجھے بھی ہے شب میں قرار بخشتے تاروں کی خیر ہو یہ لوگ ہر قدم پہ گرانے لگے مجھے لیکن سنبھالتی تری بانہوں کی خیر ہو تو جو نہیں تو پھول تو ہیں آس پاس بھی اس حبس میں کھلے ہوئے غنچوں کی خیر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2