آتے ہیں کتنے خواب ترے روز و شب مجھے

آتے ہیں کتنے خواب ترے روز و شب مجھے
وحشت سی ہونے لگتی ہے کوئی عجب مجھے


تم کو میں گر قبول ہوں ایسے ہی ٹھیک ہوں
آتا نہیں سنورنے کا کوئی بھی ڈھب مجھے


ظالم ہے بادشہ کہ ہے سب پہ فرات بند
محسوس ہو رہے ہیں سبھی سوکھے لب مجھے


بس کچھ دنوں کی بات ہے میں لوٹ آؤں گی
ہرگز صدا نہ دے کوئی پیچھے سے اب مجھے


یہ دیکھنا ہے کون مرا اس جہان میں
یعقوب کی تو آنکھیں عطا کر اے رب مجھے


وہ شخص جب کہ اب تو مری دسترس میں ہے
کرنی نہیں ہے اور کسی کی طلب مجھے


باندی کی طرح قید ہوں اس کے حضور میں
وہ بادشہ ہے اور ملے گا ہی کب مجھے