ہماری موت کا واحد ہے یہ گواہ بدن
ہماری موت کا واحد ہے یہ گواہ بدن
نہیں ہے روح پہ کوئی بھی زخم گاہ بدن
ہماری آنکھ سے ظاہر ہو روشنی کیسے
ہمارے سامنے رکھا گیا سیاہ بدن
جو گونگے لوگوں کی بستی میں کوئی نام لیا
سنائی دینے لگے مجھ کو بے پناہ بدن
ہماری روح پہ نشتر چبھے اداسی کے
ہزار آہوں پہ ماتم کدہ ہے آہ بدن
اسے مرے ہوئے گھنٹے گزر گئے کتنے
اب آگے کیا ہے نہیں ہے اگر تباہ بدن
میں اس پہ نقش بناؤں گی اپنی وحشت کے
نئی نکالوں گی تجھ سے میں کوئی راہ بدن
میں اندھے لوگوں میں شامل ہوں ان کے جیسی ہوں
سو ایک شرط ہی رکھی گئی نباہ بدن