عنبر عابد کی غزل

    جان جاتی نہیں اور جاں سے گزر جاتے ہیں

    جان جاتی نہیں اور جاں سے گزر جاتے ہیں ہم جدائی کے بھی احساس سے مر جاتے ہیں باندھ کر رخت سفر سوچ رہی ہوں کب سے جن کا گھر کوئی نہیں ہوتا کدھر جاتے ہیں جن کو تاریکی میں راتوں کی منور دیکھا صبح ہوتی ہے تو پھر جانے کدھر جاتے ہیں جب بھی خودداری کی دیوار کو ڈھانا چاہیں اپنے اندر کی صدا ...

    مزید پڑھیے

    لفظ مل جائیں تو اشعار کی تشکیل کروں

    لفظ مل جائیں تو اشعار کی تشکیل کروں ورنہ کس طرح خیالات کی ترسیل کروں حق محبت کا کہاں ہوتا ہے مرنے سے ادا حق تو یہ ہے کہ تجھے روح میں تحلیل کروں آپ تو اپنی انا سے نہیں نکلے باہر مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نظریہ تبدیل کروں تشنگی تو ہے مری ذات میں صحرا کی طرح کیسے سوکھی ہوئی آنکھوں کو ...

    مزید پڑھیے

    چراغ جل تو رہا ہے ضیا نہیں آتی

    چراغ جل تو رہا ہے ضیا نہیں آتی ہوا بھی تیز ہے لیکن ہوا نہیں آتی عجیب ہجر کا عالم ہے کیا کیا جائے سوائے دل کے کسی کی صدا نہیں آتی توقعات کی چادر سمیٹ لیتے ہیں ہمارے لب پہ کبھی بد دعا نہیں آتی تمہارے عشق نے بخشی ہے بیکلی گرچہ وفا کی راہ میں ہم کو جفا نہیں آتی سیاہ ہو گیا دل اس کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر دل ہے یہاں صبح شام کچھ بھی نہیں

    یہ شہر دل ہے یہاں صبح شام کچھ بھی نہیں تمہاری یاد سے بڑھ کر ہے کام کچھ بھی نہیں بدل کے رکھ دی ہیں تاریخ کی کتابیں سب نشاں مٹا کے وہ کہتے ہیں نام کچھ بھی نہیں عجب فضا ہے سیاست کی دور حاضر میں غریب کچھ بھی نہیں ہے عوام کچھ بھی نہیں شرافتوں میں ضرورت کے لگ گئے پیوند رہ طلب میں حلال ...

    مزید پڑھیے

    فیصلہ کوئی مرے حق میں ہوا ہے شاید

    فیصلہ کوئی مرے حق میں ہوا ہے شاید موسم گل مرے آنگن میں رکا ہے شاید مدتوں بعد کیا رابطہ اس نے تو لگا اس کو احساس پشیمانی ہوا ہے شاید آؤ اک بار کتابوں کو کھنگالا جائے پھول جو اس نے دیا تھا وہ رکھا ہے شاید نغمہ زن تار نفس میں ہیں اسی کی یادیں دھڑکنوں میں بھی وہی بول رہا ہے شاید اس ...

    مزید پڑھیے

    الفتوں کے ساغر میں سازشیں ملاتے ہیں

    الفتوں کے ساغر میں سازشیں ملاتے ہیں دوستی کے پردے میں دشمنی نبھاتے ہیں خاک کر کے بیٹھے ہیں آشیاں ہمیں اپنا بجلیاں دکھا کر یوں آپ کیا ڈراتے ہیں شام تیرے ماتھے پہ رات یوں عبادت ہے جگنو بھی چمکتے ہیں تارے جھلملاتے ہیں کوئی جانے والے کو کس طرح یہ سمجھائے واپسی میں دن اتنے آپ کیوں ...

    مزید پڑھیے

    ہو رنگ شفق جیسے رخ شام میں اترا

    ہو رنگ شفق جیسے رخ شام میں اترا وہ میری نگاہوں کے در و بام میں اترا وا ہونے لگے سارے امیدوں کے دریچے جب تیرا تصور دل نا کام میں اترا جب خون جگر گھول دیا ہم نے سخن میں تب جا کے کہیں ہے رگ ہنگام میں اترا جب جذبۂ دل صفحۂ قرطاس پہ آیا تب عکس دروں شیشۂ پیغام میں اترا جب سارا سفر کٹ ...

    مزید پڑھیے

    جو چھاؤں دیتا ہے مجھ کو گھنا شجر بن کر

    جو چھاؤں دیتا ہے مجھ کو گھنا شجر بن کر میں اس کا ساتھ نبھاتی ہوں اس کا گھر بن کر فضائے علم و ہنر راس آ گئی ہے مجھے خدا کرے کہ رہوں حرف معتبر بن کر تو چاند ہے تو دعا ہے کبھی غروب نہ ہو افق میں میں بھی رہوں مطلع سحر بن کر غلط سمجھتی تھی میں اس کو راز داں اپنا جو ایک سایہ سا ابھرا تھا ...

    مزید پڑھیے

    جینا محال ہو گیا دانائیوں کے ساتھ

    جینا محال ہو گیا دانائیوں کے ساتھ آیا خیال یار بھی رسوائیوں کے ساتھ آنکھوں سے اشک پھسلے تو دامن بھگو گئے یادوں کا قافلہ بھی تھا شہنائیوں کے ساتھ رہتے ہیں ہم کہاں یہ پتہ ہم سے پوچھئے یادوں کی اس حویلی میں پرچھائیوں کے ساتھ اک داستاں رقم ہے ان آنکھوں میں ضبط کی اترے تو کوئی فکر ...

    مزید پڑھیے