عنبر عابد کی نظم

    سلیٹ

    جو جی میں آئے اس پر تحریر کرو جیسی چاہے لکیریں کھینچ دو نقش و نگار بناؤ اور جب چاہو آسانی سے مٹا دو کہیں کوئی نشان باقی نہیں بابا کی دی ہوئی سلیٹ میری آڑی ترچھی لکیروں کا کینواس کتنا سہل ہوا کرتا تھا اس پر لکھے ہوئے کو مٹا دینا اب لکھتی تو میری بٹیا بھی ہے لیکن اب وہ سلیٹ کہاں اب ...

    مزید پڑھیے