یہ شہر دل ہے یہاں صبح شام کچھ بھی نہیں

یہ شہر دل ہے یہاں صبح شام کچھ بھی نہیں
تمہاری یاد سے بڑھ کر ہے کام کچھ بھی نہیں


بدل کے رکھ دی ہیں تاریخ کی کتابیں سب
نشاں مٹا کے وہ کہتے ہیں نام کچھ بھی نہیں


عجب فضا ہے سیاست کی دور حاضر میں
غریب کچھ بھی نہیں ہے عوام کچھ بھی نہیں


شرافتوں میں ضرورت کے لگ گئے پیوند
رہ طلب میں حلال و حرام کچھ بھی نہیں


میں اس کی مدح میں لکھوں تو کیا لکھوں عنبرؔ
ہے جس کے سامنے ماہ تمام کچھ بھی نہیں