چراغ جل تو رہا ہے ضیا نہیں آتی

چراغ جل تو رہا ہے ضیا نہیں آتی
ہوا بھی تیز ہے لیکن ہوا نہیں آتی


عجیب ہجر کا عالم ہے کیا کیا جائے
سوائے دل کے کسی کی صدا نہیں آتی


توقعات کی چادر سمیٹ لیتے ہیں
ہمارے لب پہ کبھی بد دعا نہیں آتی


تمہارے عشق نے بخشی ہے بیکلی گرچہ
وفا کی راہ میں ہم کو جفا نہیں آتی


سیاہ ہو گیا دل اس کا اس قدر اب تو
کہ بے حیائی پہ اپنی حیا نہیں آتی


حیا حجاب پہ کرتے ہیں تبصرے عنبرؔ
سروں پہ جن کے کبھی بھی ردا نہیں آتی