ہو رنگ شفق جیسے رخ شام میں اترا
ہو رنگ شفق جیسے رخ شام میں اترا
وہ میری نگاہوں کے در و بام میں اترا
وا ہونے لگے سارے امیدوں کے دریچے
جب تیرا تصور دل نا کام میں اترا
جب خون جگر گھول دیا ہم نے سخن میں
تب جا کے کہیں ہے رگ ہنگام میں اترا
جب جذبۂ دل صفحۂ قرطاس پہ آیا
تب عکس دروں شیشۂ پیغام میں اترا
جب سارا سفر کٹ گیا بے یار و مددگار
اک ہاتھ فلک سے ہے تب انجام میں اترا