جو چھاؤں دیتا ہے مجھ کو گھنا شجر بن کر
جو چھاؤں دیتا ہے مجھ کو گھنا شجر بن کر
میں اس کا ساتھ نبھاتی ہوں اس کا گھر بن کر
فضائے علم و ہنر راس آ گئی ہے مجھے
خدا کرے کہ رہوں حرف معتبر بن کر
تو چاند ہے تو دعا ہے کبھی غروب نہ ہو
افق میں میں بھی رہوں مطلع سحر بن کر
غلط سمجھتی تھی میں اس کو راز داں اپنا
جو ایک سایہ سا ابھرا تھا ہم سفر بن کر
امید و بیم سے جب آزاد ہو گئی عنبرؔ
تو کامیاب ہوئی صاحب نظر بن کر